اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ کیس میں درخواست ضمانت منظور کر لی ہے۔
بدھ کو جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے درخواست ضمانت منظور کی۔
اس موقع پر جسٹس میاں گل اورنگزیب نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ بشریٰ بی بی نے تحائف جمع نہیں کرائے تو بانی پی ٹی آئی کو ملزم کیوں بنایا گیا؟ اس پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر عمیر مجید نے کہا کہ پبلک آفس ہوڈر عمران خان تھے۔
مزید پڑھیں
-
عمران خان اور بشریٰ بی بی توشہ خانہ کے ایک اور ریفرنس میں گرفتارNode ID: 872266
جسٹس میاں گل اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ آذربائیجان جا کر دیکھیں وہاں ایک ایسا میوزیم ہے جہاں پوری دنیا کے صدور کو ملنے والے گفٹ ان کی تصویر کے ساتھ رکھے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہاں جانا ہوا تو صرف محترمہ بینظیر بھٹو کی تصویر نظر آئی، ڈھونڈتے رہے لیکن بدقسمتی سے کسی اور کی کوئی تصویر نہیں دکھائی دی۔
خیال رہے کہ رواں سال جولائی میں عدت نکاح کیس میں بریت کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ کے ایک اور ریفرنس میں گرفتار کر لیا تھا۔
نیب کی انکوائری رپورٹ میں عمران خان اور ان کی اہلیہ پر ’ایک نہیں، سات گھڑیاں خلاف قانون لینے اور بیچنے کا الزام‘ عائد کیا گیا تھا۔
نیب کی انکوائری رپورٹ کے مطابق ’یہ کیس 10 قیمتی تحائف خلاف قانون پاس رکھنے اور بیچنے سے متعلق ہے۔ گراف واچ، رولیکس گھڑیاں، ہیرے اور سونے کے سیٹ کیس کا حصہ ہیں۔‘
’تحفے قانون کے مطابق اپنی ملکیت میں لیے بغیر ہی بیچے جاتے رہے۔ گراف واچ کا قیمتی سیٹ بھی ’ریٹین‘ کیے بغیر ہی بیچ دیا گیا۔ پرائیویٹ تخمینہ ساز کی ملی بھگت سے گراف واچ کے خریدار کو فائدہ پہنچایا گیا۔‘
نیب کے مطابق تخمینہ ساز کا توشہ خانہ سے ای میل آنے سے پہلے ہی گھڑی کی قیمت تین کروڑ کم لگانا ملی بھگت کا ثبوت ہے۔ گراف واچ کی قیمت 10 کروڑ نو لاکھ 20 ہزار روپے لگائی گئی۔ 20 فیصد رقم، دو کروڑ ایک لاکھ 78 ہزار روپے سرکاری خزانے کو دیے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہر تحفے کو پہلے رپورٹ کرنا اور توشہ خانہ میں جمع کروانا لازم ہے۔ صرف 30 ہزار روپے تک کی مالیت کے تحائف مفت اپنے پاس رکھے جا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔