ماحولیاتی تبدیلیاں اور ناقص منصوبہ بندی کیسے تباہی کا سبب بن رہی ہے؟
ماحولیاتی تبدیلیاں اور ناقص منصوبہ بندی کیسے تباہی کا سبب بن رہی ہے؟
جمعہ 8 نومبر 2024 10:34
قیصرہ صدیق
حالیہ طوفان پہلے سے زیادہ شدید، خوفناک اور جان لیوا ثابت ہوا ہے: فوٹو اے ایف پی
حالیہ سیلاب نے سپین اور باقی دنیا کو یہ یاد دلایا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں، شہری ترقی، اور ناقص منصوبہ بندی کس قدر خوفناک رخ اختیار کر سکتی ہیں۔
ویسے تو سپین کا بحیرہ روم کا ساحلی علاقہ موسمِ خزاں میں آنے والے طوفانوں کا عادی ہے جو اکثر و بیشترسیلاب کا باعث بھی بن جاتے ہیں مگر اس بار سپین میں آنے والے فلیش فلڈ نے گذشتہ تعام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
سب سے زیادہ سیلابی زد میں آنے والا ’والنسیا‘، 1980 کی دہائی میں بھی ایسی دوآفات کا سامنا کر چکا ہے۔ لیکن حالیہ سیلابی طوفان پہلے سے کہیں زیادہ شدید، خوفناک اور جان لیوا ثابت ہوا ہے۔ سیلاب نے زندگی مفلوج کر دی ہے، گلیاں، مکان ، کاروبار سب تباہ ہو گئے ہیں۔
حکام کے مطابق 200 سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور مزید نقصان کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ماہرموسمیات کا کہنا ہے کہ یہ آفت موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہے۔ موجودہ وقت میں ماحولیاتی تبدیلیاں طوفان اور سیلاب جیسے شدید موسمی واقعات میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس طوفانی آفت کی دو ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ گرم موسم میں پانی بخارات بن کر فضاء میں نمی پیدا کرتا ہے، اور یہ نمی بادلوں کی شکل میں بارش بن کر زمین پر گرتی ہے اورموسمیاتی تبدیلیوں میں اضافے کی وجہ سے بارش کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
دوسری ممکنہ وجہ ’جیٹ اسٹریم‘ کے رویے میں تبدیلی ہے۔ جیٹ اسٹریم تیز ہوا کا بہاؤ ہے جو زمین کی سطح سے 8 سے 11 کلومیٹرکی بلندی پر واقع ہوتا ہے۔ یہ موسم کے پیٹرن میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ہوا کی ترسیل، طوفانی نظام، اور درجہ حرارت کی تقسیم کو متاثر کرتا ہے۔ جیٹ اسٹریم عام طور پر اہم موسمی واقعات کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔ یہ طوفانوں کی تشکیل کو بڑھا یا کم کر سکتا ہے اور بارشوں کے امکانات کو بھی متاثرکر سکتا ہے۔
موسمیاتی ماہرین کے مطابق سپین میں 2022 اور 2023 کی طویل خشک سالی اور حالیہ سیلاب موسمی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں۔ خشک موسم کے بعد اچانک ہونے والی شدید بارشوں کا پانی زمین میں بہت مشکل سے جذب ہوتا ہے، جس سے سیلاب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور سپین میں یہی دیکھنے میں آیا ہے۔
سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ سپین جیسے ممالک میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث موسم مذید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ سپین کے ساحلی علاقوں میں تیزی سے ہونے والی شہری ترقی نے نکاسی آب کے قدرتی نظام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
جب سارے کا سارا شہر سیمنٹ اور کنکریٹ سے بنا ہو تو بارش کا پانی زمین میں جذب نہیں ہو پاتا اور نتیجتاً سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔
سپین کے اکثر شہروں میں نکاسی آب کا نظام کافی پرانا ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی شدید بارشوں کو سنبھالنے کے قابل نہیں۔
جیسے کہ ہم جانتے ہیں کہ درخت اور سبزہ بارش کے پانی کو جذب کرنے اور سیلاب کو روکنے میں مدد دیتے ہیں۔
ترقیاتی مقاصد اور زراعت کے لیے کی گئی جنگلات کی کٹائی نے زمین کی پانی جذب کرنے کی صلاحیت کوبہت کم کر دیا ہے اور پانی کے بہاؤ میں تیزی آ گئی ہے۔
درخت اور سبزہ قدرتی آفات کے اثرات کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بارش کے پانی کی ایک بڑی مقدار کو اپنے پتوں اور جڑوں میں جذب کر لیتے ہیں، جس سے سطح پر بہاؤ کم ہو جاتا ہے اور زمین میں پانی کی زیادہ مقدار کو جذب ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس عمل سے شدید بارشوں کے دوران سیلاب کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ درختوں اور پودوں کی جڑیں مٹی کو مستحکم کرتی ہیں، جس سے زمین سرکنے اور مٹی کے کٹاؤ سے بھی بچا جا سکتا ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بارش بہت زیادہ ہوتی ہے۔
انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ سیلاب کا سب سے زیادہ اثرانسانوں اور ماحول پر ہوتا ہے۔ حیاتیاتی تنوع اور زرعی پیداوار کو شدید نقصان پہنچتا ہے، جس سے غذائی قلت اور معاشی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔ سیلاب کے بعد پانی میں گندگی اور بیکٹیریا پیدا ہونے کی وجہ سے صحت کے مسائل بڑھ جاتے ہیں اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں بھی پھیلنے لگتی ہیں۔
ان سب مسائل سے بچنے کے لیے سپین سمیت دنیا کے سارے ممالک میں ماحولیاتی منصوبہ بندی کو ترجیح دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ شہر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچ سکیں۔
نکاسی آب کے ایسے نظام میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے جو سیلاب کے دوران اضافی پانی کو سنبھال پائیں اور زندگیوں کو محفوظ بنا سکے۔ ساتھ ہی ساتھ جنگلات اور سبزہ زاروں کی بحالی بھی بہت ضروری ہے تاکہ پانی جذب کرنے کی قدرتی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکے۔
بروقت وارننگ سسٹم جانیں بچانے اور نقصان کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے کے لیے عالمی سطح پر مشترکہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان بحرانوں کا کوئی مشترکہ حل نکلا جا سکے۔