’بنگال کی ساحرہ‘ رونا لیلیٰ جنہوں نے پنجابی گانا ایسے گایا جیسے اُن کی مادری زبان ہو
’بنگال کی ساحرہ‘ رونا لیلیٰ جنہوں نے پنجابی گانا ایسے گایا جیسے اُن کی مادری زبان ہو
اتوار 17 نومبر 2024 11:49
یوسف تہامی اور علی عباس
رونا لیلیٰ کا دور دور تک کوئی فلمی پسِ منظر نہیں تھا اور نہ ہی وہ پنجاب سے تھیں (فوٹو: سکرین گریب)
یہ ساٹھ کی دہائی کا ذکر ہے۔ پاکستانی فلمی موسیقی میں ملکۂ ترنم نور جہاں کے علاوہ نسیم بیگم، فریدہ خانم، زبیدہ خانم، آئرن پروین اور مالا بیگم کی آوازوں کا سحر طاری تھا۔
اُس وقت چونکہ لاہور فلمی سرگرمیوں کا مرکز تھا تو ان سب گلوکاراؤں کا تعلق بھی پنجاب سے ہی تھا۔ ایک نئی گلوکارہ کے لیے ان حالات میں اپنی الگ پہچان بنانا آسان نہ تھا مگر سال 1966 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ہم دونوں‘ میں شامل یہ غزل،
’ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا
دل یہ سمجھا کہ چھلکتا ہوا اِک جام ملا‘
اس تاثر کو غلط ثابت کرنے جا رہی تھی۔ یہ غزل رونا لیلیٰ نے گائی تھی جن کے خاندان کا دور دور تک کوئی فلمی پسِ منظر نہیں تھا اور نہ ہی وہ پنجاب سے تھیں۔
وہ تو بنگالی پسِ منظر رکھتی تھیں اور اُن کے والد سید محمد امداد علی سول سرونٹ تھے جبکہ والدہ امینہ لیلیٰ چونکہ موسیقی میں دلچسپی رکھتی تھیں تو انہوں نے یہ فن اپنی دونوں بیٹیوں دینا لیلیٰ اور رونا لیلیٰ کو بھی منتقل کیا۔ خیال رہے کہ دونوں بہنوں نے فلم ’جگنو‘ کے لیے دو گانا بھی گایا تھا۔
دینا لیلیٰ نے بعد ازاں گائیکی چھوڑ دی تھی اور اُن کی شادی ہالہ کے مخدوم امین فہیم سے ہوئی تھی۔
یہ لیجنڈ گلوکارہ آج ہی کے دن 17 نومبر 1952 کو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے شہر سلہٹ میں پیدا ہوئیں۔
ان کے ماموں سبیر سین کا شمار ہندی اور بنگالی کے صفِ اول کے پلے بیک گلوکاروں میں کیا جاتا ہے اور رابندر گیت گانے میں مہارت حاصل تھی۔ یوں ایک طرح سے رونا لیلیٰ کو موسیقی وراثت میں ملی تھی۔
جب رونا لیلیٰ پروان چڑھ رہی تھیں تو اسی زمانے میں پاکستانی پلے بیک سنگر احمد رشدی مغرب کی موسیقی کے ساتھ تجربات کر رہے تھے۔
رونا لیلیٰ ان کی بڑی مداح تھیں اور وہ انہیں اپنا گرو ماننے لگیں۔ وہ نہ صرف ان کے انداز کی نقل کرتیں بلکہ سٹیج پر بھی ان کی ہی طرح پرفارم کرنے کی کوشش کرتیں۔
اپنے سکول کے زمانے میں انہوں نے کلاسیکی موسیقی میں استاد عبدالقادر پیارنگ اور استاد حبیب الدین احمد سے فیض حاصل کیا۔
سال 1968 رونا لیلیٰ کے فنی کیریئر میں غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سال انہوں نے قریباً دو درجن فلموں کے لیے 50 کے لگ بھگ گیت گائے جس سے اُن کی مصروفیت اور شہرت کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں رہتا۔
یہ پاکستانی فلم صنعت کے لیے بھی ایک اہم سال تھا کیونکہ اس سال پہلی بار ایک کیلنڈر ایئر میں 100 سے زیادہ فلمیں ریلیز ہوئیں۔
رونا لیلیٰ نے اسی برس فلم ’جگ بیتی‘ کے لیے اپنا پہلا پنجابی گیت گایا تھا جس کی موسیقی جی اے چشتی نے دی تھی۔ اُن کا گایا گیت
’ماہیا وے بنگلا پوا دے ایتھے
تے اُتے پا دے پھل پتیاں
پیری پا کے پاجیباں نچیاں
وے دس تیری کیہ مرضی
بنگلا پواں دیں گا کہ ناں۔۔‘
آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رَس گھولتا ہے۔ اس گیت کے بول نغمہ نگار حزیں قادری نے لکھے تھے۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ رونا لیلیٰ کو اپنے کیریئر کے آغاز میں ہی دو بڑے ناموں کا ساتھ میسر آ گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گیت رونا لیلیٰ کی مادری زبان میں نہیں تھا بلکہ اُردو بھی اُن کی مادری زبان نہیں تھی مگر اس کے باوجود انہوں نے اس گیت کو کچھ یوں گایا کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ پنجابی اُن کی مادری زبان نہیں ہے۔
سال 1968 میں ہی فلم ’کمانڈر‘ ریلیز ہوئی جس میں رونا لیلیٰ نے پاکستان کے ’محمد رفیع‘ یعنی مسعود رانا کے ساتھ پہلی بار گانا، ’پھول مہکتے ہیں بہاروں پہ نکھار آیا ہے میرا محبوب ہے یا جانِ بہار آیا ہے‘ گایا جو زبردست کامیاب رہا۔
اس فلم کا ہی اُن کی آواز میں گایا گیت ’جانِ من، اتنا بتا دومحبت ہے کیا‘ بھی کامیاب رہا۔ اس فلم کی موسیقی ماسٹر عبداللہ نے دی تھی جب کہ شاعر تھے مشیر کاظمی۔
ماسٹر عبداللہ لیجنڈ موسیقار ماسٹر عنایت حسین کے چھوٹے بھائی تھے اور سال 1965 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ملنگی‘ کی موسیقی انہوں نے ہی ترتیب دی تھی جس کا یادگار گیت، ’ماہی وے سانوں بھُل نہ جاویں‘ ملکۂ ترنم نور جہاں نے گایا تھا۔
یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ رونا لیلیٰ اور مسعود رانا کے گائے دو گانوں کی تعداد 20 ہے جن میں سے گیارہ پنجابی تھے۔ ان دونوں کا پہلا پنجابی دوگانا،
’کرنی آں اج اقرار تیرے سامنے لکیا نئیں رہندا ہن پیار تیرے سامنے‘ غیرمعمولی طور پر کامیاب رہا۔
رونا لیلیٰ اور احمد رشدی کی جوڑی بھی ہٹ رہی مگر ان دونوں نے صرف اُردو دو گانے ہی گائے۔
وائس آف امریکا میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق’ 70 کی دہائی میں پاکستان فلم انڈسٹری میں رونا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور اس عرصہ کے دوران انہوں نے ’امراؤ جان ادا‘ سمیت کئی مشہورِ زمانہ فلموں میں پسِ پردہ آواز کا جادو جگایا۔
اسی دور میں انہیں اپنے آئیڈیل احمد رشدی کے ساتھ کئی دو گانے، گانے کا موقع ملا اور ان دونوں فن کاروں کی جوڑی بہت مشہور ہوئی۔‘
سال 1969 میں بھی گلوکارہ کے بہت سے گیت کامیاب رہے جن میں فلم ’آسرا‘ کا گیت ’نیناں ترس کر رہ گئے پیا آئے نہ ساری رات‘ سپرہٹ رہا جس کی موسیقی لیجنڈ موسیقار نثار بزمی نے دی تھی جب کہ اسی برس فلم ’یملا جٹ‘ کے لیے رونا لیلیٰ کا گایا گیت،
’ذرا ٹھہرا جا وے
چوری چوری جان والیو
کجھ اسیں وی آں
چناں تیرے لگدے
تیرا ناں لے کے طنعے سن جگ دے‘
بھی کامیاب رہا۔ سال 1970 میں فلم ’انجمن‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں چاکلیٹی ہیرو وحید مراد اور رانی کے علاوہ سنتوش کمار، صبحیہ خانم، دیبا اور لہری جیسے اداکاروں نے کام کیا تھا۔
یہ فلم جب ریلیز ہوئی تو اُس وقت مشرقی پاکستان میں حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے تھے مگر یہ فلم اس کے باوجود کامیاب رہی۔ اس فلم کو آٹھ نگار ایوارڈ ملے۔ اس فلم کی موسیقی بھی نثار بزمی نے ہی ترتیب دی تھی جبکہ اس فلم کے لیے رونا لیلیٰ کے گائے گیت،
’آپ دل کی انجمن میں
حُسن بن کر آ گئے‘
اور
’دل دھڑکے میں تم سے یہ کیسے کہوں
کہتی ہے میری نظر شکریہ‘
آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی سماعتوں میں رَس گھولتے ہیں۔
نثار بزمی اور جی اے چشتی کے علاوہ ایم اشرف بھی اُن موسیقاروں میں شامل ہیں جن کی دھنوں پر گائے رونا لیلیٰ کے گیت زبردست کامیاب رہے جس کی ایک مثال فلم ’من کی جیت‘ بھی ہے۔
ندیم اور شبنم کی یہ فلم اگرچہ باکس آفس پر تو بہت زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی تھی مگر اس فلم کی موسیقی کو ہر خاص و عام میں پسند کیا گیا اور خاص طور پر گیت، ’میرا بابو چھیل چھبیلا میں تو ناچوں گی‘ سپر ہٹ رہا۔
یہ گیت ازاَں بعد گلوکارہ نے سال 1985 میں بالی وڈ کی فلم ’گھر دوار‘ کے لیے گایا جس نے انڈیا میں اُن کی پہچان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ گانا کئی بار ری مکس ہو چکا ہے اور ہر بار اسے پسند کیا گیا۔ یہ گیت معروف ہدایت کار شباب کیرانوی نے لکھا تھا۔
سال 1972 میں فلم ’امراؤ جان ادا‘ کے گیت ہوں یا پنجابی فلم ’ذیلدار‘ کے گیت، یہ تمام زبردست کامیاب رہے۔
اس دوران بنگلہ دیش بن چکا تھا تو اس لیے رونا لیلیٰ کا پاکستان میں فنی سفر بھی اختتام کو پہنچا مگر انہوں نے اپنے اس مختصر فنی سفر کے دوران یعنی آٹھ برسوں میں 200 کے لگ بھگ فلموں کے لیے چار سے زیادہ گیت گائے جن میں سے بہت سے سپرہٹ رہے۔
وائس آف امریکہ میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق، ’1971 میں پاکستان کی تقسیم اور بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد رونا اپنے آبائی وطن منتقل ہوگئیں اور وہاں انہوں نے بالی وڈ اور بنگلہ دیشی فلموں میں گلوکاری کا سلسلہ جاری رکھا۔
تاہم اپنے سابق وطن سے ان کی محبت میں کوئی فرق نہیں آیا اور وہ آج بھی اپنے گلوکاری کے کامیاب کیریئر کا سہرا اپنے پاکستانی استادوں اور فلم و ٹی وی انڈسٹری کی اس وقت کی ان اہم شخصیات کے سر باندھتی ہیں جنہوں نے رونا کو ان کی پہچان دی۔‘
انڈیا میں رونا لیلیٰ کا نیا جنم
راج کپور نے 1973 میں آنے والی اپنی فلم ’بوبی‘ میں شیلندر سنگھ کو متعارف کروایا جنہوں نے معروف گيت ’میں شاعر تو نہیں‘ گایا اور یہ فلم ایک کلٹ فلم ثابت ہوئی۔
اس کے بعد انڈین فلم انڈسٹری میں نئی آوازوں کی تلاش نظر آنے لگتی ہے۔ چنانچہ اسی تلاش میں رونا لیلی، نازیہ حسن اور اوشا اوتھپ جیسی گلوکارائیں سامنے آئیں جنہوں نے انڈین سنیما کے لیے اگرچہ گنے چنے گیتوں میں ہی اپنی آواز مستعار دی لیکن ان کے گیت ایک زمانے میں پورے برصغیر کی زبان پر تھے۔
ان میں رونا لیلیٰ کو اولیت حاصل ہے جنہوں نے اگرچہ سب سے پہلے 1976 میں فلم ’ایک سے بڑھ کر ایک‘ کا ٹائٹل سانگ گایا تھا لیکن وہ اس سے اگلے سال آنے والی فلم ’گھروندا‘ سے مشہور ہوئیں جس میں انہوں نے بھوپِندر سنگھ کے ساتھ ’دو دیوانے شہر میں‘ گيت گایا جو آج بھی اتنا ہی مقبول ہے، اور فلمی نغموں کے پروگراموں اور ایف ایم ریڈیو چینلوں پر سنائی دیتا ہے۔
نازیہ حسن نے 1980 میں جب فلم ’قربانی‘ کے گیت ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے۔۔‘ سے شہرت حاصل کی تو اس کا توڑ رونا لیلیٰ نے 1985 میں آنے والی فلم 'گھر دوار' کے گیت ’میرا بابو چھیل چھبیلا۔۔‘ میں پایا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل اوشا اوتھپ کے گائے ’ڈسکو ڈانسر‘ کے گیت ’کوئی یہاں ناچے ناچے۔۔۔ ‘ نے بھی دھوم مچا رکھی تھی۔
عالمی ریکارڈ
رونا لیلیٰ کے نام پر ایک گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ بھی ہے اور یہ ریکارڈ تین دنوں میں 30 گانے ریکارڈ کروانے کا ہے۔
موسیقار اور گلوکار بپی لہری کے ساتھ ان کی البم ’سوپرونا‘ یعنی سپر رونا بہت مقبول ہوئی تھی اور پہلے ہی دن اس کی ایک لاکھ کاپیاں فروخت ہو گئی تھیں جس پر انہیں سال 1982 میں گولڈن ڈسک ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔
رونا لیلیٰ نے اردو، ہندی اور بنگالی کے علاوہ کم از کم ایک درجن زبانوں میں اپنے گیت ریکارڈ کروائے جن میں انگریزی کے علاوہ عربی، بلوچی اور فرانسیسی بھی شامل ہیں۔
رونا لیلیٰ کو بنگلہ دیش اور انڈیا میں کئی ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔ جب ان کی بہن کی کینسر سے موت ہوئی تو انہوں نے ڈھاکا میں کینسر ہسپتال بنانے کے لیے مختلف جگہ چیریٹی شوز کیے۔
اس کے علاوہ وہ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک میں ایچ آئی وی/ایڈز کی خیر سگالی کی سفیر بھی رہیں۔ وہ پہلی بنگلہ دیشی شہری تھیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔
انہوں نے تین شادیاں کی۔ انہوں نے آخری شادی بنگالی اداکار عالمگیر کے ساتھ کی۔ ان کی ایک بیٹی ہے جن کی دو اولادیں ہیں۔
رونا لیلیٰ کا پاکستان میں فنی سفر اگرچہ زیادہ طویل نہیں رہا مگر انہوں نے ان چند برسوں میں ہی اپنی آواز سے ایسا سحر طاری کیا کہ وہ بنگال کی ’ساحرہ‘ کے طور پر جانی گئیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی آواز کبھی سرحدوں کی محتاج نہیں رہی اور اُن کے گیت آج بھی انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔ انہوں نے اپنے فن سے سرحدوں کو مٹا ڈالا، یا یوں کہہ لیجیے کہ یہ ثابت کر دیا کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔