Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کی ریاست منی پور میں نسلی فسادات کی تازہ لہر کا سبب کیا ہے؟

گزشتہ برس کے فسادات کے بعد دونوں قبائل کے بہت سے خاندان بے گھر ہو گئے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر نسلی فسادات بھڑک اٹھے ہیں اور گزشتہ 24 گھنٹے میں ایک ہلاکت بھی ہوئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق میانمار سے متصل 32 لاکھ کی آبادی پر مشتمل انڈین ریاست منی پور کے کُوکی اور میتی قبائل کے درمیان جنگ بندی کے بعد تشدد کی نئی لہر جاری ہے۔
ان دو قبائل کے درمیان لڑائیوں میں گزشتہ برس مئی کے بعد سے کم از کم 250 افراد ہلاک جبکہ 60 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
منی پور کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے مطابق فسادات کا یہ تازہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب جیری بام ضلعے میں کوکی قبیلے کی ایک 31 سالہ خاتون کی جلی ہوئی لاش ملی۔
یہ وہ علاقہ ہے جہاں جون کے بعد فسادات نہیں ہوئے تھے۔ گزشتہ برس کے فسادات کے بعد دونوں قبائل کے بہت سے خاندان بے گھر ہو گئے تھے تاہم جیری بام میں ابھی تک ملی جلی آبادی موجود تھی۔
کوکی قبیلے کے افراد نے اس قتل کا الزام میتی قبیلے پر عائد کیا ہے۔
اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز سے تصادم میں کوکی قبیلے کے 10 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ پولیس اور کوکی قبیلے کے درمیان تصادم کے دوران میتی قبیلے کے چھ افراد بھی لاپتا ہوئے۔
جمعے کو ان چھ لاپتا افراد میں سے تین کی لاشیں دریا میں تیرتی ہوئی ملیں جس کے بعد منی پور کے دارالحکومت امپھال میں ناراض مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔

نسلی فسادات کی تازہ لہر کے بعد حکومت نے کرفیو نافذ کرتے ہوئے 20 نومبر تک انٹرنیٹ سروسز بند کر دی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پولیس کا کہنا کہ ریاستی اسمبلی کے ارکان اور وزراء کے گھروں کو آگ لگانے کے الزام میں 23 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مظاہرین نے منی پور کے وزیراعلیٰ بیرن سنگھ کے گھر پر بھی حملہ کیا۔
منی پور کے اس علاقے میں نسلی فسادات کی تازہ لہر کے بعد سنیچر کو حکومت نے کرفیو نافذ کرتے ہوئے 20 نومبر تک انٹرنیٹ سروسز بند کر دی تھیں۔
منی پور کے نسلی فسادات کی وجہ کیا ہے؟
گزشتہ برس مئی میں ریاست میں مسیحی کوکیوں کی جانب سے اُن کی آبادی والے علاقے میں ہندوؤں کے لیے سرکاری سرپرستی میں زمین خریدنے کی اجازت اور خصوصی حیثیت دینے کے خلاف احتجاج شروع کیا گیا تھا جس کے بعد سے پُرتشدد ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔
منی پور میں نسلی فسادات 3 مئی 2023 کو اس وقت شروع ہوئے جب ریاست کی طلبہ تنظیم ’آل ٹرائبل اسٹوڈنٹس یونین منی پور‘ (اے ٹی ایس یو ایم) نے ریاست کی تمام اقلیتی برادریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے منی پور ہائی کورٹ کے سامنے مارچ کیا، جس میں ہزاروں طلبہ نے شرکت کی۔
انڈین اخبار ’دی ہندو‘  کے مطابق مذکورہ مارچ اپریل 2023 میں منی پور ہائی کورٹ کی جانب سے دیے گئے ایک فیصلے کے خلاف کیا گیا تھا۔

میتی قبیلے کے افراد منی پور میں اکثریت میں ہیں اور ان کی مجموعی آبادی ریاست کا 53 فیصد ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

منی پور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ریاست کے اکثریت قبیلے ’میتی‘ کو بھی شیڈولڈ کاسٹ یعنی اقلیتی قبیلے میں شمار کیا جائے اور اسے بھی وہ مراعات دی جانی چاہئیں جو اقلیتی اور پسماندہ طبقے کو ملتی ہیں۔
میتی قبیلے کے افراد منی پور میں اکثریت میں ہیں اور ان کی مجموعی آبادی ریاست کا 53 فیصد ہے لیکن انہیں اقلیتوں اور پسماندہ برادریوں والے خصوصی حقوق حاصل نہیں، جس کی وجہ سے انہیں اپنی ہی ریاست میں بہت سارے علاقوں میں زمین خریدنے کا اختیار نہیں، اس کے علاوہ انہیں زیادہ تر شہروں اور خصوصی طور پر صرف دارالحکومت کے ارد گرد تک ہی رہنے کی اجازت ہے۔
اسی تفریق کی بنا پر میتی قبیلے کے رہنماؤں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور دلیل دی کہ اقلیتی قبائل جن میں کوکی سرفہرست ہے، ان کی مجموعی آبادی 40 فیصد سے بھی کم ہے لیکن وہ ریاست کی 90 فیصد زمین کے مالک ہیں اور انہیں دیگر حقوق بھی حاصل ہیں، اس لیے ان کی طرح میتی قبیلے کو بھی اقلیتی خانے میں شامل کیا جائے۔
عدالت نے ریاستی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ مرکزی حکومت کو تجاویز بھیجے کہ میتی قبیلے کو بھی اقلیت میں شامل کیا جائے، جس پر وہاں کی اقلیتی برادریوں اور خصوصی طور پر کوکی برادری نے احتجاج کیا اور پہلا احتجاج 3 مئی کو ہوا اور اگلے ہی روز اسی احتجاج پر حملہ ہوا تو پوری ریاست میں پرتشدد واقعات کا آغاز ہوگیا۔

شیئر: