Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سونے سے بھی قیمتی،‘ غزہ میں گدھا گاڑی نقل و حرکت کا واحد ذریعہ

غزہ میں جنگ کے بعد سے گدھا گاڑی سفر کا واحد ذریعہ رہ گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
غزہ کی رہائشی آمنہ ابو مغاصب کا ذریعہ معاش ایک جانور سے جڑا ہوا ہے جس کی مدد سے وہ لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں اور پیسے کماتی ہیں۔
آمنہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ جنگ سے پہلے وہ دودھ اور دہی بیچنے کا کاروبار کرتی تھیں اور ایک فیکٹری والے ان سے دودھ خرید لیتے تھے۔
 ’اب میرے پاس کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے سوائے اس گدھا گاڑی کے۔‘
جنگ سے پہلے بھی غزہ میں گدھا گاڑیوں کا استعمال عام تھا لیکن اس کے بعد ہونے والی تباہی اور ایندھن کی کمی کے باعث گاڑیوں کے بجائے گدھے ہی سواری کا ذریعہ ہیں۔
غزہ کے بےگھر شہری لڑائی یا حملوں سے بچنے کے لیے انہی گدھا گاڑیوں پر سامان لادے خود کو کسی محفوظ مقام پر پہنچاتے ہیں۔
دیگر شہریوں کے لیے بھی گدھا گاڑی ٹرانسپورٹ کا واحد ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔
غزہ کی مروا ییس بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ سفر کے لیے گدھا گاڑی کا ہی استعمال کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں گدھا گاڑی پر دیر البلح سے نصیرات جانے کے لیے 20 شیکل (5.40 ڈالر) دیتی ہوں۔ یہ بہت زیادہ پیسے ہیں لیکن موجودہ حالات میں ہر چیز جائز لگتی ہے۔ جبکہ صرف پانچ کلومیٹر کا راستہ ہے۔‘
’جنگ کے شروع کے دنوں میں مجھے گدھا گاڑی پر بیٹھنے میں شرم محسوس ہوتی تھی لیکن اب کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں کام کے لیے استعمال ہونے والے جانوروں یعنی گھوڑے، گدھوں اور خچروں میں سے 43 فیصد مارے جا چکے ہیں جبکہ صرف 2 ہزار 627 زندہ بچ گئے ہیں۔
آمنہ ابو مغاصب کا کہنا ہے کہ گدھا گاڑی رکھنے کا واحد خرچہ جانور کی خوراک کا ہے لیکن جنگ کے بعد سے انسانوں اور جانوروں دونوں کی خوراک کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔

غزہ جنگ میں 43 فیصد گدھے، گھوڑے اور خچر مارے جا چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

خرچے کے پیسے نکالنے کے بعد آمنہ دن بھر میں صرف 20 شیکل کما سکی ہیں۔
غزہ کے ایک اور شہری یوسف محمد کا کہنا ہے کہ ان مشکل حالات میں ان کے اور اہل خانہ کے لیے ان کا گدھا ہی ہے جس کی وجہ سے کچھ آسانی ہے۔
’جب جنگ شروع ہوئی تو گاڑیوں کے کرائے بہت زیادہ بڑھ گئے تھے اور گدھے کے علاوہ میرے پاس کوئی اور چوائس نہیں رہی تھی۔ جب ہمیں نقل مکانی کرنا پڑی تو شکر ہے  اس وقت میرے پاس یہ گدھا موجود تھا۔‘
ایک اور شہری حسنی ابو وردہ نے بتایا کہ جب شمالی جبالیہ میں واقع ان کا گھر تباہ ہوا تو نقل مکانی کے لیے ان کے پاس گدھا گاڑی کے علاوہ ٹرانسپورٹیشن کا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ 
حسنی ابو وردہ کو لڑائی والے علاقے سے بھاگنے کے لیے 14 گھنٹے گدھا گاڑی کا انتظار کرنا پڑا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے وقتوں میں گدھا سونے اور جدید گاڑیوں سے بھی زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔

شیئر: