یونان کشتی حادثہ: ’48 پاکستانیوں کو بچا لیا گیا، متعدد تاحال لاپتہ‘
یونان کشتی حادثہ: ’48 پاکستانیوں کو بچا لیا گیا، متعدد تاحال لاپتہ‘
منگل 17 دسمبر 2024 7:25
پاکستانی سفیر عامر آفتاب قریشی کا کہنا تھا کہ پانچوں کشتیاں لیبیا سے روانہ ہوئی تھیں (فوٹو: اے ایف پی)
یونان میں پاکستان کے سفیر عامر آفتاب قریشی نے کہا ہے کہ غیرقانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں الٹنے والی کشتیوں پر سوار 48 پاکستانیوں کو بچا لیا گیا جبکہ متعدد تاحال لاپتہ ہیں۔
منگل کو ایتھنز میں پریس کانفرنس کے دوران سفیر عامر آفتاب قریشی کا کہنا تھا کہ ریسکیو آپریشن اب بھی جاری ہے، لاپتہ افراد کے زندہ بچنے کی امیدیں تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔
ان کے مطابق کشتیاں ڈوبنے کے واقعات ایک ہی دن ہوئے۔ ’کشتیاں 9، 11 اور 12 دسمبر کو لیبیا کے مقام تبروک سے روانہ ہوئیں اور ان کو بین الاقوامی پانیوں میں 120 گھنٹے کا سفر کرنا تھا۔‘
عامر آفتاب نے انکشاف کیا کہ ’لیبیا سے غیر قانونی طور پر پانچ کشتیوں کے ذریعے پاکستانی تارکین وطن روانہ ہوئے تھے، اور حادثہ گنجائش سے زیادہ افراد سوار ہونے کے باعث پیش آیا۔ جس کشتی پر 80 پاکستانی موجود تھے، اس میں شگاف پڑنے کے بعد وہ ڈوب گئی۔ لاپتا افراد میں بڑی تعداد کم عمر بچوں کی ہے۔‘
کشتیوں کی ساخت کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ان کی لمبائی آٹھ سے 10 میٹر تھی اور وہ پلاسٹک اور فائبر کی بنی ہوئی تھیں۔
’ایسی کشتیاں مچھلی پکڑنے یا چھوٹے سفر کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور ان میں 15 سے 20 تک لوگ بیٹھ سکتے ہیں۔‘
عامر آفتاب قریشی نے بتایا کہ تینوں کشتیوں میں سے ایک میں 45، دوسری میں 47 اور تیسری میں 83 افراد سوار تھے اور ان کو یونان کے جنوب میں واقع ایک چھوٹے سے جزیرے گاؤڈوس کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ وہیں سے یونان کی سمندری حدود شروع ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’جب آپ بین الاقوامی پانیوں کو پار کرکے اس جزیرے تک پہنچتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ آپ یورپ میں داخل ہو گئے۔‘
ان کے مطابق ’اس لیے انسانی سمگلرز کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو وہاں تک پہنچایا جائے اور پھر وہاں سے ملک کے مختلف حصوں میں داخل کیا جائے۔‘
پاکستانی سفیر نے بتایا کہ کشتیاں جب ریبدوس کے قریب پہنچیں تو ان کی حالت بہت زیادہ خراب ہو چکی تھی اس لیے اس علاقے میں موجود مختلف ممالک کی کشتیوں نے ڈوبنے سے قبل لوگوں کو بچانے کی کوشش کی اور بچایا بھی۔
’9 دسمبر کو روانہ ہونے والی کشتی میں سے چھ اور دوسری سے پانچ پاکستانیوں کو بچایا گیا۔‘
تارکین غیرمحفوظ اور کھچا کھچ بھری ہوئی کشتیوں میں یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ 11 دسمبر کو روانہ ہونے والی کشتی میں 83 افراد سوار تھے، اس لیے جب اس میں پانی آنا شروع ہوا تو افراتفری پھیل گئی اور وہ الٹ گئی، تاہم وہاں سے گزرنے والی کشتیوں کے عملے نے 39 افراد کو بچایا جن میں سے 37 پاکستانی تھے۔
پاکستان کے سفیر نے کہا کہ اطلاع ملتے ہی پاکستان کے سفارت خانے نے اپنی ٹیم روانہ کر دی تھی اور اب بھی حکام وہاں پر موجود ہیں۔
اس حادثے کے حوالے سے ہوش ربا انکشافات بھی سامنے آئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انسانی اسمگلرز نے کوسٹ گارڈ اور سرویلینس سسٹم سے بچنے کے لیے بڑے بحری جہازوں کے بجائے چھوٹی کشتیوں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ 11 سے 12 دسمبر کی شب تارکین وطن کو لیبیا سے تین مختلف کشتیوں میں سوار کیا گیا۔ یہ کشتیاں ڈھائی دن تک سمندر میں رہیں، جن میں سے دو محفوظ رہیں جبکہ ایک حادثے کا شکار ہو گئی۔
متاثرین کی عمریں 15 سے 40 سال کے درمیان تھیں، جن میں زیادہ تر 25 سے 30 سال کے نوجوان شامل تھے۔ کشتی میں 15 سے 16 سال کے تین کم عمر بچے بھی موجود تھے۔ زیادہ تر افراد کا تعلق پنجاب کے سیالکوٹ، منڈی بہاؤالدین اور گجرات کے علاقوں سے تھا۔
وزارت خارجہ نے پیر کو کشتی حادثے میں چار پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
دوسری جانب وزارت داخلہ کے مطابق کشتی کے حادثے میں پاکستانیوں کی اموات کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے پانچ روز میں رپورٹ وزیر داخلہ کو پیش کرنی تھی۔
محسن نقوی نے کہا تھا کہ ’انسانی سمگلنگ جرم ہے، جس میں ملوث مافیا کئی گھر اجاڑ چکے ہیں۔‘
انہوں نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو انسانی سمگلنگ میں ملوث مافیا کے خلاف ملک گیر کارروائیاں شروع کرنے کی بھی ہدایات دیں۔