Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’الیکٹرک کار پر سیاحت اب ممکن،‘ تین ہزار چارجنگ سٹیشنز قائم ہوں گے

ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک میں ٹیکنالوجی کا استعمال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے جی ایٹ مرکز میں گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے مدثر علی (فرضی نام) اپنی الیکٹرک کار پر کراچی اور پھر کوئٹہ تک سفر کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
تاہم وہ اپنے دوست کے ہمراہ جب اس سفر کے لیے روانہ ہوئے تو الیکٹرک گاڑیوں کے لیے زیادہ چارجنگ سٹیشنز نہ ہونے کی وجہ سے وہ بہ مشکل لاہور تک ہی پہنچ سکے۔
اُنہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’آپ اگر پاکستان میں اپنی الیکٹرک گاڑی پر مختلف شہروں کا سفر کرنا چاہتے ہیں تو اس خواب کی تعبیر سرِدست ممکن نہیں ہے جس کی وجہ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سہولیات کا ناکافی ہونا ہے۔‘
تاہم جب مدثر علی کو حکومت کی الیکٹرک وہیکل پالیسی برائے سال 2025-30 کے تحت ملک کے مختلف شہروں اور موٹرویز پر 3000 چارجنگ سٹیشنز لگانے کے منصوبے کا علم ہوا تو انہیں اب الیکٹرک گاڑی پر پاکستان کی سیاحت کا خواب پورا ہوتا ہوا دکھائی دینے لگا ہے۔
حکومت پاکستان کی الیکٹریکل وہیکل پالیسی 2025 تا 2030 کے تحت ملک میں اگلے دو سال کے عرصہ میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے 3000 چارجنگ سٹیشنز  لگائے گی۔
اس حوالے سے ملک کی دو نجی کمپنیوں ملک انٹرپرائزز اور انڈس ویلی نے حکومت پاکستان کے اشتراک سے چین کی کمپنی ایڈم گروپس کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔
پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے چارجنگ سٹیشنز لگانے والی ایک پاکستانی کمپنی کے مالک ملک خدا بخش کا کہنا ہے کہ ’آنے والے دو برس پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے مستقبل کے حوالے سے انقلابی سال ثابت ہوں گے۔‘
تاہم آٹو موبائل انڈسٹری سے منسلک افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ’حکومتی منصوبہ بندی یا اعلانات پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال میں اضافے کی وجہ نہیں بن سکتے اس ضمن میں حکومت کو ٹھوس اور قابلِ عمل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘

پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ سٹیشنز کی منصوبہ بندی

نئی انرجی وہیکل پالیسی 2025-30 کے تحت سال 2030 تک ملک میں مجموعی طور پر 30 فیصد تک الیکٹرک گاڑیاں استعمال میں لائی جائیں گی۔
اسی مناسبت سے حکومت کی جانب سے ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ چارجنگ سٹیشنز لگائے جانے کی حکمتِ عملی بنائی گئی ہے۔

ملک خدا بخش کے مطابق اس وقت ملک بھر میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے محض 11 سے 13 چارجنگ سٹیشنز قائم ہیں۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)

اُردد نیوز نے جب پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ سٹیشنز لگائے جانے والی کمپنی کے مالک ملک خدا بخش سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ ’دو پاکستانی کمپنیاں حکومت پاکستان کے اشتراک سے چینی کمپنی کے ساتھ مل کر اگلے دو برسوں میں 3 ہزار چارجنگ سٹیشنز لگائیں گی۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’اس معاہدے کے تحت مجموعی طور پر 3 ہزار چارجنگ سٹیشنز لگائے جائیں گے۔

’اگلے دو ہفتوں میں چارجنگ سٹیشنز لگنا شروع ہو جائیں گے‘

پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے چارجنگ سٹیشنز لگائے جانے کے معاملے پر ملک خدا بخش نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس وقت ملک بھر میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے محض 11 سے 13 چارجنگ سٹیشنز قائم ہیں- ہم حکومتِ پاکستان اور چینی کمپنی کی مدد سے جنوری کے آغاز سے ہی چارجنگ سٹیشنز لگانا شروع کر دیں گے جن کی تعداد کو 3 ہزار تک بڑھایا جائے گا۔‘
’ابتدا میں ملک کے بڑے شہروں میں چارجنگ سٹیشنز قائم ہوں گے‘
ملک خدا بخش سے جب یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان میں کہاں کہاں الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ سٹیشنز لگائے جائیں گے تو انہوں نے بتایا کہ ’آغاز میں ملک کے بڑے شہروں کراچی لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان وغیرہ میں چار جنگ سٹیشنز لگائے جائیں گے۔ علاوہ ازیں اسلام آباد تا کراچی موٹرویز پر بھی یہ سہولت فراہم کی جائے گی۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’دو سال میں چاروں صوبائی دارالحکومتوں سمیت کشمیر اور گلگت بلتستان تک الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ سٹیشنز قائم کر دیے جائیں گے۔‘

 ’چارجنگ سٹیشنز لگانے کے لیے درخواستیں موصول ہونا شروع ہو گئی ہیں‘

پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے چارجنگ سٹیشنز لگائے جانے کے طریقۂ کار پر بات کرتے ہوئے ملک خدا بخش نے بتایا کہ ’ہم پاکستان میں چارجنگ سٹیشنز خریدنے والے افراد کو تمام سہولیات فراہم کریں گے۔‘
’چارجنگ سٹیشنز کی خریداری کے لیے اہل قرار پانے والے شہریوں کو 10 لاکھ کی گارنٹی (جو کہ قابلِ واپسی ہو گی) میں چارجنگ سٹیشن فراہم کیا جائے گا اور پھر گاڑی کی چارجنگ فیس میں سے 15 فیصد حصہ سرمایہ کاری کرنے والی تینوں کمپنیوں کا ہو گا۔‘

’چارجنگ سٹیشنز کے آلات پاکستان میں ہی مینوفیکچر ہوں گے، سولر پر بھی چلائے جا سکیں گے‘

حکومت کی الیکٹریکل وہیکل پالیسی کے تحت پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے چارجنگ سٹیشنز لگانے والی کمپنیاں فروری 2025 سے چارجنگ سٹیشنز کے آلات پاکستان میں ہی بنانے کی پابند ہوں گی جس کے لیے تیاریاں حتمی مراحل میں داخل ہو گئی ہیں۔

علی رضا کے مطابق پاکستان میں آنے والی مختلف حکومتیں الیکٹریکل وہیکلزکے استعمال میں اضافے کے اعلانات کرتی رہی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

علاوہ ازیں، پاکستان میں لگائے جانے والے چارجنگ سٹیشنز بجلی کے ساتھ ساتھ سولر پر بھی چل سکیں گے۔ اس حوالے سے ملک خدا بخش کا کہنا تھا کہ ’چارجنگ سٹیشنز دن میں سولر اور پھر رات میں بجلی پر چلیں گے۔‘
آٹو موبائل انڈسٹری کے ماہر سنیل منج کے خیال میں اس وقت تک پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے کوئی بڑا نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے اس شعبے میں مستقل قریب میں بھی کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔
اُنہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’اس وقت پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی مجموعی تعداد ہی 2 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ دوسری جانب الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ایک درجن سے بھی کم چارجنگ سٹیشنز قائم ہیں۔اس صورتِ حال میں پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں سے منسلک کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے خدشات موجود رہیں گے۔‘
سنیل منج کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مکمل نیٹ ورک قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال میں اگر کوئی انقلابی تبدیلی آ بھی سکتی ہے تو وہ موٹر سائیکلوں یا رکشوں کے حوالے سے آ سکتی ہے اور فور ویلر گاڑیوں کے استعمال میں بڑے اضافے کے فی الحال امکانات نہیں ہیں۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ ’کسی بھی ملک میں ٹیکنالوجی کا استعمال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال میں بھی راتوں رات بڑا اضافہ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے حکومت کو ایک  جامع پلان کے تحت آگے بڑھنا ہو گا۔‘
آٹو موبائل انڈسٹری کے ماہر سید علی رضا نے اگلے دو سال کے عرصہ میں ملک بھر میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے 3 ہزار چارجنگ سٹیشنز قائم کرنے کی حکومتی منصوبہ بندی کے بارے میں اپنا تبصرہ کرنے سے قبل سوال اٹھایا کہ کیا ان چارجنگ سٹیشنز کا حال بھی کچھ عرصہ بعد سی این جی سٹیشنز جیسا نہیں ہو جائے گا؟‘
اُن کا کہنا تھا کہ‘پاکستان میں آنے والی مختلف حکومتیں الیکٹریکل وہیکلزکے استعمال میں اضافے کے اعلانات کرتی رہی ہیں مگر ہوم ورک نہ ہونے کی وجہ سے اُنہیں کامیابی نہیں مل سکی۔ اسی طرح جب پاکستان میں سی این جی سٹیشنز لگائے گئے تو اُن کے حوالے سے بھی کوئی پائیدار حکمتِ عملی ترتیب نہیں دی گئی تھی جس کے باعث آج سی این جی سٹیشنز ویران پڑے ہیں۔‘
اُنہوں نے حکومت پر زور دیا کہ ’وہ پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کرے اور پھر ایسی پالیسیوں پر کام شروع کرے تاکہ کامیابی کے امکانات زیادہ سے زیادہ ہوں۔‘

شیئر: