جنوبی کوریا کے حکام صدر کو گرفتار کرنے میں ناکام، ’رویہ قابلِ افسوس‘
جنوبی کوریا کے حکام صدر کو گرفتار کرنے میں ناکام، ’رویہ قابلِ افسوس‘
جمعہ 3 جنوری 2025 6:28
صدر کی سکیورٹی سروس نے تفتیشی ٹیم کو رہائش گاہ کے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ فوٹو: اے ایف پی
جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول کے وارنٹِ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود متعلقہ حکام صدرکو حراست میں لینے میں ناکام ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یون سوک یول کے حمایتی جمعے کی علی الصبح ہی صدارتی رہائش گاہ کے باہر موجود تھے اور صدر کو گرفتار کرنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم تھے۔
صدر یون سوک یول کو 3 دسمبر کو مارشل لا نافذ کرنے پر قید یا پھر سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔ اس اقدام کی تحقیقات کرنے والے کرپشن انویسٹیگیشن آفس (سی آئی او) نے کہا ہے کہ صدر یون سوک یول کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے گئے ہیں۔
جمعے کی صبح سات بجے سے پہلے ہی سی آئی او کی ٹیم صدارتی کمپاؤنڈ کے سامنے پہنچ گئی تھی اور پیدل اندر داخل ہوئی۔ تاہم کمپاؤنڈ کے اندر ٹیم کو صدر کی سکیورٹی پر مامور صدارتی سکیورٹی سروس (پی ایس ایس) اور فوجی اہلکاروں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ فوجی اہلکار صدارتی سکیورٹی سروس کے ماتحت ہیں۔
سی آئی او نے اپنی ٹیم کے حفاظتی خدشات کے باعث مقامی وقت کے مطابق دوپہر 1 بج کر 30 منٹ پر صدر کو گرفتار کرنے کی کوششیں ترک کر دی تھیں۔
کرپشن انویسٹیگیشن آفس کا کہنا ہے کہ یون سوک یول کا احکامات کی تعمیل نہ کرنے کا رویہ ’انتہائی افسوسناک‘ ہے۔‘
سی آئی او نے اپنے بیان میں کہا کہ رکاوٹوں کے باعث وارنٹِ گرفتاری پر عمل درآمد کروانا ناممکن ہے۔
یون سوک یول جن کے صدارتی اختیارات پہلے ہی معطل ہو چکے ہیں، وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں جنوبی کوریا کی تاریخ میں گرفتار ہونے والے پہلے صدر ہوں گے۔
صدر کے وکیل کا کہنا ہے کہ ایسے وارنٹ جو غیرقانونی اور ناجائز ہوں ان پر عمل درآمد بھی غیرقانونی ہے۔
پوچھ گچھ کے لیے بلائے جانے کے کئی احکامات نظرانداز کرنے کے بعد عدالت نے منگل کو صدر کے وارنٹ گرفتاری کی منظوری دی تھی جو 6 جنوری تک قابل عمل ہیں۔
تفتیش کار صرف 48 گھنٹوں کے لیے صدر کو حراست میں رکھ سکیں گے۔ اس کے بعد تفتیش کاروں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ صدر کو مزید حراست میں رکھنے کے لیے درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں یا پھر انہیں رہا کرنا چاہتے ہیں۔
صدر کو گرفتار کرنے کی غرض سے متعدد پولیس بسیں اور سینکڑوں پولیس افسران صدارتی رہائش گاہ کے باہر موجود تھے۔
رواں ہفتے صدر کو حراست میں لینے کے عدالتی حکم کے بعد سے یون سوک یول نے خود کو گھر کے اندر محصور کر رکھا ہے۔
ایک ماہ قبل 3 دسمبر کو صدر یون سوک یول نے ملک میں مارشل لگا نافذ کر دیا تھا۔ قوم سے ٹیلی ویژن پر براہ راست خطاب میں صدر کا کہنا تھا کہ ’یہ اقدام ملک کو ’کمیونسٹ فورسز‘ سے بچانے کے لیے کیا ہے۔‘
تاہم اپوزیشن کی جانب سے سخت مخالفت اور عوامی احتجاج کے چند گھنٹوں بعد ہی صدر نے مارشل لا ختم کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
مارشل لا لگانے کے تقریباً دو ہفتے بعد 14 دسمبر کو صدر یون سوک یول کے خلاف پارلیمنٹ میں پیش کی گئی مواخذے کی تحریک کامیاب ہو گئی تھی۔