لاہور ہائی کورٹ میں 13 جنوری کو کمرہ عدالت میں کافی گرم گرما ماحول تھا۔ یہ مقدمہ تھا محکمہ پولیس کے ایک انسپکٹر مظہر اقبال کی ضمانت کا۔
جسٹس محمد وحید خان کی عدالت میں ضمانت کے مقدمے کی کارروائی کا آغاز ہوا تو اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کے وکیل نے دلائل کا انبار لگا دیا۔
انہوں نے ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’ملزم اس لیے بھی ضمانت کا مستحق نہیں کہ وہ پہلی درخواست ضمانت خارج ہونے کے بعد 14 ماہ تک مفرور رہا۔‘
مزید پڑھیں
-
صہیب مقصود کا سندھ پولیس پر رشوت کا الزام، چار اہلکار گرفتارNode ID: 815391
-
کچے کے ڈاکوؤں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں، سندھ پولیس ناکام کیوں؟Node ID: 846316
-
پنجاب پولیس کی ناکامی کے بعد رینجرز بجلی چوری روک سکے گی؟Node ID: 883785
ملزم پولیس انسپکٹر کے خلاف منشیات کی سمگلنگ سمیت 14 مقدمات درج ہیں۔ مظہر اقبال ملازمت سے برطرف بھی رہے، اُن کی تنزلی بھی ہوئی، تاہم پھر بحال بھی ہو گئے۔‘
ان تندوتیز دلائل کے بعد جلد ہی انسپکٹر مظہر اقبال کے وکیل کو احساس ہو گیا کہ یہ ان کا دن نہیں اور انہوں نے عدالت سے کہا کہ ’وہ اپنی ضمانت کی درخواست سرے سے واپس ہی لے لیتے ہیں۔‘
عدالت نے درخواست واپس لیے جانے کے بعد خارج کر دی۔ اس کے بعد انسپکٹر مظہر اقبال نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور سر جھکائے کمرہ عدالت سے باہر آ گئے تو اے این ایف نے انہیں احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا۔
انسپکٹر مظہر اقبال کون ہیں؟
اگست 2023 میں لاہور میں ایک ایسا واقعہ سامنے آیا جس نے پولیس کے ایک انسپکٹر مظہر اقبال کو صوبے کا ’موسٹ وانٹڈ‘ ملزم بنا دیا۔ واقعے کی تفصیلات پولیس کی ایک اعلٰی سطح کی تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آئیں جو کہ ہلا کر رکھ دینے والی تھیں۔
پولیس کی اس رپورٹ کے مطابق ملزم انسپکٹر مظہر اقبال دو ارب روپے سے زائد کے اثاثوں کے مالک ہیں اور 1994 سے اب تک کرپشن کے الزامات پر چھ مرتبہ ملازمت سے نکالے جا چکے ہیں جب کہ ان کے خلاف مختلف نوعیت کے 14 مقدمات بھی درج ہیں۔
اے این ایف نے جو مقدمہ درج کیا ہے اس کے مندرجات کے مطابق ’انسپکٹر مظہر اقبال سرحد پار منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔‘
’انہوں نے احمد نامی ایک سمگلر سے 8 کروڑ روپے رشوت بھی وصول کی جو کہ سرحد پار منشیات پہنچانے کا کام کرتا تھا۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگست 2023 میں جب اے این ایف کو یہ شواہد ملے تو اس وقت مظہر اقبال لاہور پولیس کے اینٹی منشیات یونٹ کے سربراہ تھے۔ جب ان کی گرفتاری کے لیے ان کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا تو وہ چھت سے فرار ہو گئے۔
اے این ایف کے اس چھاپے کے ساتھ سی آئی اے پولیس کی نفری بھی موجود تھی۔ علامہ اقبال ٹاؤن سرکل کے سی آئی اے انسپکٹر محمد علی بٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مظہر اقبال ایک کانسٹیبل کے طور پر بھرتی ہوئے اور پھر انسپکٹر کے عہدے تک پہنچے اور متعدد مرتبہ معطل ہوئے۔‘
ان کے مطابق ملزم کے خلاف ابھی جو مقدمہ چل رہا ہے اس کو اے این ایف کے حکام ہی دیکھ رہے ہیں اور انہوں نے ہی ملزم کو گرفتار کیا ہے۔ ملزم گذشتہ ایک سال سے روپوش تھا اور پولیس کی ملازمت سے چھ مرتبہ برطرف ہو چکا ہے۔
اے این ایف کی تحقیقات کے مطابق ان سے جو اشیا ضبط کی گئی ہیں ان میں ایک ڈرون بھی شامل ہے جس کے ذریعے مبینہ طور پر انڈیا میں منشیات ترسیل کی جاتی تھیں۔