اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز ہو گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسرائیل نے اتوار کو کہا کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد عالمی معیاری وقت کے مطابق صبح 9 بج کر 15 منٹ پر شروع ہوا۔
مزید پڑھیں
-
اسرائیلی کابینہ نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری دے دیNode ID: 884589
غزہ میں عالمی معیاری وقت کے مطابق آج اتوار کو صبح ساڑھے چھ بجے معاہدے پر عمل درآمد شروع ہونا تھا تاہم، یرغمالیوں کی فہرست نہ ملنے کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو گئی تھی۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اتوار کی صبح اسرائیل کے وزیراعظم نے حماس کو یرغمالیوں کی فہرست فراہم کرنے کا کہا جس پر عسکریت پسند تنظیم حماس نے بتایا کہ وہ ’تکنیکی‘ وجوہات کی بناء پر ایسا نہیں کر سکتی۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ’حماس اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی اور جب تک وہ ہمارے مطالبات پورے نہیں کرتی اسرائیل حملے جاری رکھے گا۔‘
فلسطینی سول ایمرجنسی سروس کے مطابق معاہدے پر عمل درآمد میں تاخیر کے دوران غزہ میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں کم از کم آٹھ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد سے ایک گھنٹہ قبل اعلان کیا تھا کہ یہ اس وقت تک شروع نہیں ہوگا جب تک حماس پہلے تین مغویوں کی فہرست فراہم نہیں کر دیتی جنہیں اتوار کو رہا کیا جانا ہے۔
اتوار کو ان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وزیراعظم نے آئی ڈی ایف (اسرائیل ڈیفنس فورسز) کو ہدایت کی ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز اُس وقت تک نہیں ہوگا جب تک کہ اسرائیل کو رہا ہونے والوں کی فہرست نہیں مل جاتی جسے حماس نے فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔‘
حماس نے غزہ جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مرحلے میں رہا کیے جانے والے یرغمالیوں کے نام ظاہر کرنے میں تاخیر ’تکنیکی وجوہات‘ کی وجہ سے ہوئی۔
حماس نے وضاحت نہیں کی کہ وہ کون سی تکنکیکی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے وہ یرغمالیوں کی فہرست فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کے سخت گیر وزیر ایتمار بن گویر غزہ معاہدے پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اتوار کی صبح سے نافذ ہونے کے بعد یرغمالیوں کی رہائی گھنٹوں بعد ہوگی، جس سے مشرق وسطیٰ میں 15 ماہ سے جاری جنگ کے ممکنہ خاتمے کا راستہ کھل جائے گا۔
جنگ بندی کا یہ معاہدہ مصر، قطر اور امریکہ کی ثالثی میں کئی مہینوں تک جاری رہنے والی بات چیت کے بعد ہوا۔ یہ معاہدہ پیر 20 جنوری کو امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری سے چار دن پہلے طے پایا۔
جنگ بندی کے اس معاہدے کا پہلا مرحلہ چھ ہفتے تک جاری رہے گا جس کے دوران غزہ میں موجود بقیہ 98 اسرائیلی یرغمالیوں میں سے 33 کو رہا کیا جائے گا جبکہ بدلے میں تقریباً 2000 فلسطینی قیدیوں اور نظربندوں کو اسرائیلی جیلوں سے واپس غزہ لایا جائے گا۔
اسرائیل کی جانب سے جن فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا ان میں سے کچھ ایسے عسکریت پسند گروپوں کے ارکان ہیں جن کو اسرائیلیوں پر حملوں کے الزام میں سزائیں سنائی گئی تھیں۔
تین اسرائیلی خواتین یرغمالیوں کو اتوار کی سہ پہر ریڈ کراس کے ذریعے 30 فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا۔