سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کی انٹرا کورٹ پر جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔
منگل کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنگین کوتاہی کے الزام میں ایڈیشنل رجسٹرار (جوڈیشل) نذر عباس کو عہدے سے ہٹا دیا تھا جبکہ رجسٹرار کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں تشکیل چھ رکنی لارجر بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
-
وفاقی کابینہ کا رجسٹرار سپریم کورٹ کی خدمات واپس لینے کا فیصلہNode ID: 755541
-
سپریم کورٹ میں آئینی بینچز کی تشکیل، جوڈیشل کمیشن کا اجلاسNode ID: 881271
لارجر بینچ 27 جنوری کو عہدے سے معطل ہونے والے ایڈیشنل رجسٹرا ایڈ نذر عباس کی جانب سے دائر انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کرے گا۔
عدالت عظمیٰ نے منگل کو ایڈیشنل رجسٹرار کو ہٹانے کے حوالے سے اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں کہا تھا کہ ’یہ مسئلہ مقدمات کی فکسنگ میں بدانتظامی سے متعلق ہے جن میں کسٹمز ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا۔‘
’یہ مقدمات آئینی بینچ کے سامنے پیش کیے جانا تھے، تاہم غلطی سے انہیں سپریم کورٹ کے ریگولر بینچ کے سامنے مقرر کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں عدالت، ادارے اور تمام فریقوں کے وقت اور وسائل کا ضیاع ہوا۔‘
اعلامیے کے مطابق ’مذکورہ مقدمات تین ججوں پر مشتمل ریگولر بینچ کے سامنے مقرر کیے گئے تھے۔ ان مقدمات کی سماعت 13 جنوری 2025 کو ہوئی، جہاں کیس کے میرٹ کے ساتھ ساتھ کسٹمز ایکٹ کی شق 11A کی ذیلی شق 2 کی آئینی حیثیت کو بھی چیلنج کیا گیا۔ اس بنیاد پر بینچ کے دائرہ اختیار پر اعتراض اٹھایا گیا۔‘
’بعد ازاں مقدمات کی سماعت 16 جنوری 2025 تک ملتوی کر دی گئی۔ اپنی سنگین کوتاہی کا ادراک کرتے ہوئے جوڈیشل برانچ نے ایک نوٹ کے ذریعے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے سیکشن 2 (1) کے تحت ریگولر کمیٹی سے رجوع کیا۔ معاملے کی سنگینی کے پیش نظر کمیٹی 17 جنوری 2025 کو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں منعقد ہوئی۔‘
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ آئین کے آرٹیکل 191A کی شق 3 کو شق 5 کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے مقدمات کا اختیار صرف آئینی بینچ کو حاصل ہے۔‘
نذر عباس نے اپنی اپیل میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ انھوں نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی اس لیے توہین عدالت کا نوٹس واپس لیا جائے اور ان کی معطلی ختم کی جائے۔