بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں غار کے اندر قائم ایک میوزیم سے مذہب اسلام کی مقدس کتاب قرآن کے 100 سے زائد نایاب نسخے چوری ہو گئے ہیں۔
یہ قدیم نسخے کوئٹہ کے مغرب میں واقع پہاڑی سرنگ کے اندر بنائے گئے میوزیم میں رکھے گئے تھے جنہیں 21 اور 22 جنوری کی درمیانی شب چوری کیا گیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے ملزمان کی تلاش شروع کردی ہے۔
مزید پڑھیں
-
روس کی ایک اور زبان میں قرآن کے معانی و مطالب کا ترجمہNode ID: 780706
-
ڈنمارک میں قرآن کی ’بے حرمتی‘، سعودی عرب کی شدید مذمت اور برہمیNode ID: 781786
جس مقام سے یہ نسخے چُرائے گئے ہیں اسے ’جبل نور‘ کہا جاتا ہے جو کوئٹہ کا مشہور سیاحتی مرکز ہے۔
میوزیم کے انچارج محمد اجمل نے پولیس تھانہ بروری میں نامعلوم ملزمان کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 380، 457 اور 427 کے تحت مقدمہ درج کرایا ہے۔
مقدمے کے متن کے مطابق ’21 اور22 جنوری کی درمیانی شب نامعلوم چور غار کے ساتھ ٹوٹی ہوئی دیوار کے راستے میوزیم کے اندر داخل ہوئے اور وہاں سے قرآن مجید کے قدیمی نسخے چوری کر کے فرار ہوگئے۔‘
محمد اجمل یوسفزئی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’قرآن مجید کے 120 نسخے چوری کیے گئے ہیں جن میں سے کچھ 900 سال تو کچھ 100 برس پرانے ہیں جو ادارے نے گزشتہ 30 برسوں کے دوران جمع کیے تھے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ان میں ہاتھ سے لکھے ہوئے قلمی اور خطّاطی کے خوبصورت نموںوں پر مشتمل نسخے اور قرآن کے مختلف زبانوں کے تراجم بھی شامل تھے۔‘
محمد اجمل کے مطابق قرآن کے یہ نسخے شیشے کے شو کیسز میں رکھے گئے تھے جنہیں تالے لگے تھے۔ ’ملزمان نے شیشے توڑ کر شو کیسز کے اندر سے یہ نسخے نکالے اور چوری کر لیے۔‘
جبل نور کے ایک اور منتظم بالاچ لہڑی نے بتایا کہ ’چوروں نے یہ واردات باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کی اور رات گئے اُس وقت چوری کی جب بجلی جاتی ہے اور کیمرے کام نہیں کرتے۔‘
محمد اجمل یوسفزئی کے مطابق جبل نور کو پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں قرآن کے ضعیف اوراق کو محفوظ بنانے کے بڑے مراکز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پہاڑوں کے اندر سرنگیں کھود کر ان میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کی جِلدوں کو محفوظ رکھا گیا ہے۔
کوئٹہ میں جبل نور کو ایک سیاحتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے اور ہر سال اندرون اور بیرون ملک سے ہزاروں افراد یہاں کا دورہ کرتے ہیں۔
محمد اجمل یوسفزئی کے مطابق یہ ادارہ 1992 میں کوئٹہ کے کاروباری شخص میر عبدالصمد لہڑی نے شروع کیا تھا جسے اب ان کے خاندان کی دوسری اور تیسری نسل چلا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہاڑ کے اندر ایک ہزار فٹ سے بھی لمبی 100 سے زائد سرنگیں کھودی گئی ہیں جن میں اب تک دو کروڑ سے زائد نسخے محفوظ کیے جا چکے ہیں۔
میوزیم کے انچارج محمد اجمل نے مزید کہا کہ سیاح ان خوبصورت، قابلِ دید اور نایاب نسخوں میں دلچسپی لیتے تھے۔