Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکراتی عمل ختم، کمیٹیاں تحلیل: عرفان صدیقی

پاکستان تحریک انصاف کے مذاکراتی عمل سے باہر نکلنے اور وزیراعظم کی جانب سے دوبارہ بات چیت کی پیشکش کو مسترد کیے جانے پر حکومت نے بھی مذاکراتی عمل ختم کر دیا ہے۔
حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور ن لیگی رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے تصدیق کی کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔
’تحریک انصاف والے جس تیزی کے ساتھ مذاکرات کے لیے آئے تھے اسی تیزی سے واپس چلے گئے ہیں۔ ان کا واحد اور حقیقی مطالبہ عمران خان اور دیگر رہنماؤں کی فوری رہائی تھی جس کا راستہ یہی ہے کہ وہ وزیراعظم سے کہیں کہ وہ صدر کو ان کی سزا معافی کی سفارش کریں۔‘
جمعے کو اُردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’مذاکرات میں اس وقت نہ تعطل ہے اور نہ ہی کوئی بریک ڈاؤن ہے۔ یہ ختم ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم کی پیشکش کے باوجود ان کی طرف سے جو جوابات آئے ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ آج 31 جنوری ہے۔ ان کی جانب سے جو ڈیڈ لائن دی گئی تھی وہ بھی آ چکی ہے، انھوں نے اپنی کمیٹی بھی تحلیل کر دی ہے تو اب یہ ختم ہو چکے ہیں۔‘
تحریک انصاف کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے جواب میں حکومت نے کیا کچھ کیا اس حوالے سے انھوں نے کہا کہ ’ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں بہت سے مطالبات ایسے تھے جن کی بنیاد پر اعتماد سازی ہو سکتی تھی۔ ان میں بہت سوں پر ہم نے غور کر لیا تھا۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ان کی جو سب سے بڑی ڈیمانڈ تھی کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے ہم نے اس پر بھی ریڈ کراس نہیں لگایا تھا۔ ہم نے اپنے وکلاء سے مشورہ ضرور کیا تھا جن کا جواب یہ تھا کہ جب معاملات عدالتوں میں ہوں تو اس پر جوڈیشل کمیشن نہیں بن سکتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کے باوجود ہم نے دو ٹوک جواب دینے کے بجائے یہ سوچا تھا کہ ہم یہ جواب دیں گے کہ ہمارے وکلاء کی یہ رائے ہے آپ اپنے وکلاء کو بلا لیں جو اپنی رائے دیں۔ ہمیں قائل کریں اور ہم مل کر بیچ کا کوئی راستہ نکال لیں گے۔‘
عرفان صدیقی نے کہا کہ ’اعتماد سازی کے حوالے سے بھی ہم نے اور بھی بہت سی چیزوں پر کام کر لیا تھا‘ تاہم، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اقدامات کیے گئے، عرفان صدیقی نے بتایا کہ ’وہ ابھی تک خفیہ ہیں اور اگر وہ سامنے آنے تھے تو تحریک انصاف کے ذریعے ہی سب تک پہنچنے تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہم نے جو دستاویز تیار کی تھی وہ حرفِ آخر بھی نہیں بلکہ اس کو ورکنگ پیپر کا نام دیا گیا تھا جس کی تراش خراش ممکن تھی اور اگر وہ آتے اور بیٹھتے تو ان کے لیے اس میں کئی ایک اطمینان بخش چیزیں تھیں۔‘

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں وزیراعظم کی مذاکرات کی پیشکش کے بعد کوئی پیشکش کر سکیں (فوٹو:ایکس)

اس سب کے باوجود تحریک انصاف مذاکرات سے کیوں نکلی؟ کیا انھیں کسی نادیدہ قوت سے اشارہ ملا؟ اس سوال کے جواب میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ انہیں نہیں لگتا کہ ایسا کچھ ہوا ہوگا۔
’بنیادی طور پر پی ٹی آئی کے ڈی این اے اور خمیر میں مذاکرات، بات چیت اور لین دین شامل ہی نہیں۔ وہ سڑکوں، چوراہوں، ڈنڈوں، غلیلوں، نو مئی، 26 نومبر اور تشدّد کے لیے بنی ہے۔ انھوں نے جب جب بھی مذاکرات کیے وہاں سے ایسے ہی نکلے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ ہمارے جواب میں کیا تھا۔ 28 جنوری کی صبح تک تو ہم کام کر رہے تھے۔ پی ٹی آئی نے چھ دن پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ عمران خان نے کہہ دیا ہے تو اب مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ان کو کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔ وہ کسی اور انداز سے کام کر رہے تھے۔‘
تحریری مطالبات کے علاوہ تحریک انصاف نے مذاکراتی عمل کے دوران بھی کچھ مطالبات کیے تھے یا نہیں؟ اس حوالے سے سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ کمیٹی میں انھوں نے کچھ شخصیات کا نام لے کر ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
’تحریک انصاف نے یہ نہیں کہا کہ انھیں ایگزیکیٹو آرڈر کے ذریعے رہا کریں لیکن انھوں نے عمران خان، شاہ محمود قریشی، عمر چیمہ، اعجاز چوہدری، یاسمین راشد اور محمود الرشید کا نام لے کر رہائی کا مطالبہ کیا۔ یہ نام لکھے نہیں لیکن بول کر کہا کہ آپ ان کی رہائی میں سہولت کاری کریں۔ اس کے علاوہ انھوں نے دیگر قیدیوں کی رہائی کا بھی کہا۔‘
عرفان صدیقی کے مطابق یہ ان کا واحد مطالبہ تھا۔ باقی جوڈیشل کمیشن اور دیگر باتیں بے معنی اور ثانوی تھیں۔
’اس میں واحد حل یہ ہے کہ تحریک انصاف آئے اور وزیراعظم سے کہے کہ وہ صدر کو سفارش کریں کہ ان کی سزائیں معاف کر دی جائیں تو شہباز شریف صدر زرداری کو یہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کی رہائی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘

عرفان صدیقی نے بتایا کہ کمیٹی میں تحریک انصاف نے کچھ شخصیات کا نام لے کر ان کی رہائی کا مطالبہ کیا (فوٹو: سپیکر آفس)

انہوں نے کہا کہ ’بیرسٹر گوہر نے سپیکر سے مذاکرات کے لیے کمیٹی بنانے کا کہا جس کے بعد وزیراعظم نے کمیٹی بنائی۔ ہم نے یہ طے کیا تھا کہ باہر زلزلہ آجائے، طوفان آجائے کچھ بھی ہو جائے مذاکرات جاری رکھیں گے۔ اسی وجہ سے ہم نے عمران خان کے وزیراعظم کو گالی دینے سمیت کسی بھی ٹویٹ پر مذاکرات کے دوران کوئی ردّعمل نہیں دیا۔ اس کے باوجود اچانک مذاکرات ختم کرنے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ مذاکرات جاری نہیں رکھنا چاہتے تھے۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں وزیراعظم کی پیشکش کے بعد کوئی پیشکش کر سکیں۔
’تحریک انصاف نے خود 31 جنوری کی ڈیڈ لائن دے رکھی تھی جو انھوں نے خود ہی آٹھ دن پہلے ختم کر دی۔ کل انھوں نے اپنی مذاکراتی کمیٹی کو بھی تحلیل کر دیا۔ پیغام یہ دیا ہے کہ یہ کھیل تماشا ختم ہو گیا ہے۔ اب ہماری کمیٹی رہے یا نہ رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ہم نے اپنی آخری میٹنگ میں یہ طے کیا تھا کہ 31 جنوری تک کمیٹی موجود رہے گی۔ یکم فروری سے یہ کمیٹی بھی عملاً تحلیل ہو جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں، اتحادوں کو بنتے ٹوٹتے دیکھا ہے، بڑے بڑے واقعات دیکھے، وزیراعظم کو اقتدار سے نکلتے، گرفتار ہوتے، پھانسی چڑھتے اور جلا وطن ہوتے دیکھا ہے لیکن تحریک انصاف پاکستان کی تاریخ کا ایک منفرد عجوبہ ہے۔ یہ خان نہیں تو پاکستان نہیں کے نعرے کی عملی تصویر ہے جو افسوسناک ہے۔‘
پیکا ایکٹ کے حوالے سے سوال پر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’اس میں پہلی بات تو یہ ہے پارٹی کا ایک فیصلہ ہوتا ہے جس کے ساتھ ہونا ہوتا ہے یا پھر انسان ساتھ چھوڑ دے۔ اس کے باوجود میں نے وزیر قانون کی جانب سے بلائی گئی میٹنگ میں اپنی رائے دی۔ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں بھی صحافیوں کو بات کرنے کا موقع میری تجویز اور سفارش پر ملا۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ وسیع تر مشاورت ہونی چاہیے تھی، رائے لینی چاہیے تھی اور صحافیوں کے تحفّظات دور کرنے چاہییں۔
’تیسری بات یہ ہے کہ میں ذاتی طور پر اس قانون کی روح سے متفق ہوں کیونکہ صحافت اور فیک نیوز پھیلانے والوں میں فرق کرنا چاہیے۔ حقیقی صحافت کرنے والے لوگ اس قانون کی زد میں نہیں آئیں گے بلکہ وہ لوگ آئیں گے جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے لوگوں کی گندی ویڈیوز بناتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کے باوجود میں نے وزیراعظم سے بات کی ہے کہ صحافیوں کی بات سن کر ان کے تحفظات ختم  کرتے ہوئے قانون میں ترمیم کرنی چاہیے۔ ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور میں ذاتی حیثیت میں اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر اس پر کام کروں گا۔‘

 

شیئر: