پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات ختم کرنے اور منگل کو شیڈول اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل ڈیڈ لاک کا شکار ہوگیا ہے۔
اس صورتحال کے پیش نظر حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا، تاہم سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف حکومت پر دباؤ بڑھانے میں تو کامیاب ہوگئی ہے البتہ اس دباؤ کا فائدہ تحریک انصاف کو بھی شاید نہیں ہوگا۔
مزید پڑھیں
-
لائیو: مذاکرات سے گریز غیر جمہوری رویہ ہے، وزیراعظمNode ID: 885044
سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا مشاورتی اجلاس ہوا، جس میں پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکراتی سیشن میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کے بعد کی صورت حال پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں سپیکر ایاز صادق سمیت حکومتی کمیٹی کے تمام ارکان شریک ہوئے۔ تاہم، پی ٹی آئی کے کسی بھی نمائندے کی عدم موجودگی کے باعث اجلاس میں کوئی عملی پیش رفت نہ ہو سکی۔
اجلاس کے دوران سپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کے سینیئر رہنماؤں اسد قیصر اور عمر ایوب سے دوبارہ ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی۔ سپیکر نے کہا کہ تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے اور یہ وقت ہے کہ فریقین مل بیٹھ کر معاملات طے کریں۔ تاہم، پی ٹی آئی نے مشاورت کے بعد مذاکراتی عمل میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا اور واضح کیا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بغیر مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
اس کے بعد حکومتی کمیٹی مذاکراتی اجلاس کے لیے کمیٹی روم میں آئی اور سپیکر کی سربراہی میں باضابطہ اجلاس ہوا۔ تاہم کچھ دیر بعد اپوزیشن کی عدم شرکت کی وجہ سے اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافی رانا غلام قادر کا کہنا تھا کہ 'تحریک انصاف نے خود ہی 31 جنوری کی ڈیڈلائن دے رکھی تھی لیکن وہ اس سے قبل ہی مذاکراتی عمل سے علیحدہ ہوگئے۔ حکومت کی جانب سے اتمام حجت ہی سہی لیکن ان کو بلانے کے لیے کوششیں بھی کی گئیں لیکن وہ واپس نہیں آئے۔ اس کی ایک وجہ تو عمران خان ہیں کیونکہ پارٹی کی دیگر قیادت کے پاس فیصلہ سازی کا کوئی اختیار نہیں ہے ورنہ وہ مذاکرات کے حامی ہیں۔‘
رانا علام قادر کے مطابق دوسری وجہ حکومت پر دباؤ بڑھانا ہے کیونکہ اس وقت مذاکرات کے ذریعے سیاسی استحکام حکومت کی مجبوری ہے جبکہ تیسری وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اقتدار سنبھالنا ہو سکتا ہے کیونکہ تحریک انصاف کو ان سے بہت سے امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالیں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف مذاکرات سے نکل کر اگرچہ حکومت پر دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہوئی ہے کیونکہ کئی ایک حکومتی وزرا تو پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے ہوئے تھے جیسے مذاکرات سے صرف تحریک انصاف ہی نے سب کچھ حاصل کرنا ہے۔‘
’اب اگر تحریک انصاف ایک بار پھر سڑکوں پر آئی تو حکومت دباؤ میں ہوگی۔ البتہ عمران خان کو سزا ہونے کے بعد پارٹی نے جس قدر ٹھنڈا ردعمل دیا ہے اس سے خود تحریک انصاف کی پوزیشن بھی کمزور ہوئی ہے۔ اس لیے مذاکرات سے نکل کر جو دباؤ فی الحال حکومت پر ڈالا گیا ہے اسے زیادہ عرصے تک برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بہتر ہوتا تحریک انصاف چوتھے دور کا حصہ بنتی اور حکومت کا جواب سنتی اس سے تحریک انصاف کے پاس یہ ٹھوس جواز ہوتا کہ حکومت ان کے مطالبات پر کوئی جواب نہیں دے سکی۔‘
اجلاس کے بعد سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ مذاکرات ہی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہیں، لیکن پی ٹی آئی کی عدم شرکت کی وجہ سے کمیٹی کا اجلاس جاری رکھنا ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی کمیٹی برقرار رہے گی اور پی ٹی آئی کے مذاکرات میں شرکت کا انتظار کیا جائے گا۔
نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے بھی مذاکراتی عمل میں رکاوٹ پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت نے مثبت نیت کے ساتھ تیاری کی تھی اور پی ٹی آئی کے مطالبات کا تحریری جواب تیار کر لیا تھا۔ اگر پی ٹی آئی قیادت آج آتی تو ان سے ان کے موقف پر بات کی جاتی، لیکن یکطرفہ بیان دینا مناسب نہیں۔
تجزیہ کار حسن عسکری نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 'تحریک انصاف نے مذاکرات میں واپس نہیں آنا تھا کیونکہ حکومت کی جانب سے اعتماد سازی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔‘
’حکومت کم از کم کسی ایک عدالت میں رہنماؤں بالخصوص بزرگ رہنماؤں کی ضمانتوں سے متعلق ہی یقین دہانی کرا دیتی تو بھی بات آگے بڑھنے کے امکانات تھے جبکہ جوڈیشل کمیشن کے معاملے پر بات چیت جاری رکھتے اور کچھ نئے نکات کو مذاکرات کا حصہ بنا لیا جاتا تو کم از کم یہ تاثر ملتا کہ حکومت مذاکرات چاہتی ہے لیکن ایسا کوئی قدم سامنے نہیں آیا۔‘
ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ ’جب سے تحریک انصاف نے مذاکرات سے نکلنے کا اعلان کیا ہے تب سے حکومتی ارکان کا رویہ سیاسی نہیں بلکہ طنزیہ ہے۔ ایسے میں جیل میں قید لیڈر کے لیے مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ سیاسی رویہ دکھائے۔‘
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، اور پی ٹی آئی کو میز پر آنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا رویہ گذشتہ دس سے بارہ سال سے یہی ہے۔ ’حکومت ان کے مطالبات پر آئینی و قانونی دائرے میں بات کرنے کو تیار ہے۔‘
رانا ثنا اللہ نے پی ٹی آئی کی عدم شرکت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے انکار جمہوریت کے خلاف ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عمر ایوب نے سپیکر ایاز صادق کو آگاہ کیا کہ حکومت تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے اور جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بغیر بات چیت بے معنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی مذاکراتی عمل کو سنجیدہ نہیں سمجھتی اور اس معاملے پر پارٹی کی سینیئر قیادت مزید مشاورت کے بعد فیصلہ کرے گی۔
سیاسی امور کی ماہر ڈاکٹر آمنہ محمود کا کہنا ہے کہ 'یہ پہلا موقع تو نہیں ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہوا ہے۔ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں بھی چلتے ہوئے مذاکرات سے تحریک انصاف نکل گئی تھی لیکن اس کا نقصان بھی تحریک انصاف کو ہی ہوا کیونکہ یہ تاثر بڑا مضبوط ہے کہ اگر وہ مذاکرات جاری رہتے تو نو مئی کا واقعہ نہ ہوتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف کو مذاکرات میں واپس آنا چاہیے اور حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ طعن و تشنیع کے بجائے تحریک انصاف کو منا کر مذاکرات کا دوبارہ حصہ بنائے۔ ابھی تو مذاکرات کا آغاز ہے آگے چل کر تو ہو سکتا ہے کہ مرکزی قیادت کو ایک میز پر بیٹھنا پڑ جائے اس لیے سیاسی دروازے کھلے رکھ کر ہی آگے بڑھنا چاہیے۔‘