Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کرکٹ ٹیم نے کراچی میں کرشمہ کر دکھایا، عامر خاکوانی کا تجزیہ

رضوان اور سلمان آغا کی سینچریاں خوش آئند ہیں۔ کپتان اور نائب کپتان کا فارم میں ہونا ٹیم کے لیے بہت اچھا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بدھ کی شام کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں موجود شائقین اور ٹی وی پر میچ دیکھنے والوں کے لیے شاندار اور یادگار رہی۔
پاکستان اور جنوبی افریقہ کے مابین یہ میچ سہ ملکی ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ جو یہ میچ جیتے، اسی ٹیم نے 14 فروری کو کراچی ہی میں نیوزی لینڈ کے ساتھ فائنل میچ کھیلنا تھا۔
پاکستان نے بدھ کی شام ایک نیا کرشمہ تخلیق کر ڈالا۔ اس کے تخلیق کار تھے پاکستانی ون ڈے ٹیم کے کپتان محمد رضوان اور نائب کپتان سلمان علی آغا۔
میچ کا آغاز خاصا مایوس کن اور پاکستانی فینز کے لیے پریشان کن تھا۔ جنوبی افریقہ نے دھواں دھار بیٹنگ کرتے ہوئے 50 اوورز میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر 352 رنز بنائے۔
یعنی پاکستان کو جیت کے لیے تین 353 کا ٹارگٹ ملا۔ یہ بہت بڑا ٹارگٹ تھا۔ پاکستان نے اپنی تاریخ میں اتنے بڑے ہدف کو کبھی حاصل نہیں کیا تھا۔ 
پاکستانی بولنگ لائن جس طرح بے بس نظر آئی وہ بھی ایک عبرت انگیز نظارہ تھا۔ شاہین شاہ آفریدی، محمد حسنین، نسیم شاہ تینوں فاسٹ بولر لاچاری کا بدترین نمونہ نظر آئے۔ ابرار احمد بھی کچھ زیادہ موثر نہیں رہے۔
محمد حسنین زیادہ پٹے، آٹھ اوورز میں 72 رنزدیے، جبکہ شاہین شاہ نے دس اوورز میں 66، نسیم شاہ نے 68 اور ابرار نے دس اوورز میں 63 رنز دیے۔ خوشدل شاہ سب سے بہتر رہے اور سات اوورز میں 39 رنز دیے جبکہ سلمان آغا نے پانچ اوورز میں 33 رنز دیے۔
پاکستانی فیلڈنگ بھی خاص نہیں رہی اور بولنگ میں وہ کاٹ نہیں تھی جس کی پاکستانی بولرسے توقع تھی۔ جنوبی افریقی کپتان ٹیمبا بووما نے جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے 82 رنز، پچھلے میچ میں سینچری بنانے والے میتھو بریٹزکی نے 83 رنز بنائے مگر پاکستانی بولرز کی حقیقی معنوں میں دھنائی کلاسن نے کی۔

جنوبی افریقہ کی اس ٹیم میں ان کے کئی تجربہ کار کھلاڑی شامل نہیں مگر بولنگ ان کی بری نہیں تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کلاسن نے ایک 155 کے سٹرائیک ریٹ سےچھپن گیندوں پر 87 رنز بنائے جبکہ کلائن ویرائن نے بھی آخری اوورز میں اچھی ہٹنگ کی۔
تب یوں لگ رہا تھا کہ پاکستان کے لیے یہ ہدف عبور کرنا ازحد مشکل ہے کیونکہ پاکستانی بیٹنگ لائن تعاقب کرتے ہوئے اکثر ہانپنے لگتی ہے اور اگر سات رنز فی اوور کے حساب سے پورا میچ کھیلنا پڑے تب تو ٹارگٹ پہاڑ پر چڑھنے سے زیادہ مشکل لگتا ہے۔
جنوبی افریقہ کی بیٹنگ کے دوران ایک دو ناخوشگوار واقعات بھی ہوئے، نسیم شاہ جنوبی افریقی کپتان بووما پر فقرے کستے رہے، پھر شاہین شاہ اور میتھو بریٹزکی میں ٹکراؤ ہوا، تلخی بھی رہی۔
بووما کے رن آوٹ ہونے پر خوشدل شاہ اور سلمان آغا نے ضرورت سے زیادہ جوش کا مظاہرہ کیا۔ فیلڈ میں یہ گرما گرمی شاید پاکستانی ٹیم پر دباؤ کا نتیجہ تھی جنہیں اندازہ تھا کہ یہ میچ ہارنے کی صورت میں وہ ٹورنامنٹ سے باہر ہوجائیں گے اور ہوم کراؤڈ کا دباؤ بڑھے گا۔ خیر ایسے اہم میچز میں اس طرح ہو بھی جاتا ہے۔
پاکستانی ٹیم کا آغاز اچھا تھا۔ فخرزمان اور بابراعظم دونوں نے اچھے شاٹس کھیلے اور تیز سٹارٹ فراہم کیا۔ بابراعظم اچھے ٹچ میں تھے، انہوں نے عمدہ شاٹس کھیلے اور چار خوبصورت چوکے لگائے۔
تب یہ لگ رہا تھا کہ شاید آج بابراعظم ایک بڑی اننگزکھیلنے میں کامیاب ہوجائیں گے، تاہم ملڈر کا ایک اچھا گیند پڑ کر تیزی سے اندر آیا اور بابراعظم ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔

۔ سلمان آغا نے سیٹ ہونے کے بعد بہت عمدہ بیٹنگ کی اور کئی ورلڈ کلاس شاٹس کھیلے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بابر کا خیال تھا کہ گیند نے بلے کو چھوا ہے، اس لیے آوٹ نہیں۔ ریویو لینے سے پتہ چلا کہ گیند بلے کو لگی مگر پیڈ کو پہلے ٹچ ہوئی تھی۔ 19 گیندوں پر 23 رنز بنانے والے بابر اعظم کی مایوسی اور فرسٹریشن دیدنی تھی۔ وہ پچھلے دو برسوں میں کئی بار ایسی اندر آتی گیندوں پر وکٹ گنوا چکے ہیں، انہیں اس پر مزید کام کرنا ہوگا۔
سعود شکیل نے دو اچھے چوکے لگائے مگر غیر ضروری طور پر گیند کو ڈیپ سکوئرلیگ پر کھڑے فیلڈر کے ہاتھوں میں اچھال دیا۔ کامران غلام کی جگہ پر آنے والے سعود شکیل صرف 15 رنز بنا سکے۔
فخر زمان بھی اچھے ٹچ میں تھے، انہوں نے اچھے شاٹس کھیلے اور ڈیڑھ سو کے لگ بھگ سٹرائیک ریٹ سے چھ چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 41 رنز بنائے۔ انہیں بھی بابر کی طرح ملڈر نے اچھے گیند پر آوٹ کیا۔
91 رنز پر فخر کے آوٹ ہونے کی صورت میں تیسری وکٹ گر گئی تو یوں لگا کہ میچ ہاتھ سے نکل گیا۔ اچھی بات یہ تھی کہ پاکستان نے پہلے 10 اوورز میں اپنے حساب سے بہت تیز بیٹنگ کرتے ہوئے نو رنز فی اوور کا رن ریٹ رکھا تھا جو بعد میں کام آیا۔
اس کے بعد ہوا وہ کرشمہ ہوا جسے صرف یہ میچ دیکھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں، ویسے کسی کو بتایا جائے تو یقین نہیں آئے گا۔
کون تصور کر سکتا تھا کہ محمد رضوان اور سلمان آغا دونوں مل کر ڈھائی سو رنز سے زیادہ کی پارٹنر شپ بنا دیں گے اور جنوبی افریقی بولنگ لائن کو پوری طرح زچ کر دیں گے۔
رضوان اور سلمان آغا نے سنگلز، ڈبلز کے ساتھ موقعہ ملنے پر چوکے لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ سلمان آغا نے سیٹ ہونے کے بعد بہت عمدہ بیٹنگ کی اور کئی ورلڈ کلاس شاٹس کھیلے۔ سلمان آغا کی ٹائمنگ اور گیپ پلیسنگ کے سامنے جنوبی افریقی بوولرز پوری طرح بے بس نظر آئے۔ یہ ہر اعتبار سے ایک ورلڈ کلاس اننگ تھی۔

رضوان 122 رنز بنا کر ناٹ اوٹ رہے، ان کا سٹرائیک ریٹ  95 رہا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سلمان آغا نے اپنی اننگ میں دو شاندار چھکوں اور 16 چوکوں کی مدد سے ایک 134 رنز بنائے۔
سٹرائیک ریٹ 130 تھا جو ون ڈے کے حساب سے بہت اچھا ہے۔ انہوں نے آخر میں ایکسٹرا کور پر ملڈر کو ایک شاندار چھکا لگایا۔ محمد رضوان نے اپنے مخصوص انداز میں تین شاندار چھکے لگائے، انہوں نے سنچری بھی چھکا لگا مکمل کی۔
رضوان 122 رنز بنا کر ناٹ اوٹ رہے، ان کا سٹرائیک ریٹ سو سے تھوڑا کم (95)رہا۔ میچ کے اختتامی لمحات میں ایک سلوبال پر سلمان آغا اوٹ ہوگئے تھے، مگر نئے آنے والے طیب طاہر نے پہلی گیند پر چوکا لگا کر پاکستان کوچھ وکٹوں سے شاندار فتح دلوا دی، ابھی میچ کا ایک اوور باقی تھا۔ یوں پاکستان فائنل میں پہنچ گیا جو 14 فروری کو ہوگا۔
جنوبی افریقہ کی اس ٹیم میں ان کے کئی تجربہ کار کھلاڑی شامل نہیں مگر بولنگ ان کی بری نہیں تھی۔ دو تجربہ کار سپنرز کیشو مہاراج اور تبریز شمسی آج کھیل رہے تھے، نگیڈی ان کے اچھے تجربہ کار فاسٹ بولر ہیں جبکہ ملڈر نے بھی ابتدا میں عمدہ بولنگ کرائی۔
جنوبی افریقہ نے ربادا اور مارکو جانسن کو مس کیا، مگر پاکستانی بلے باز جتنا عمدہ کھیل رہے تھے، ایسے میں ربادا وغیرہ بھی کچھ نہ کر پاتے۔
اس میچ میں دو تین ریکارڈ بنے۔ سب سے اہم یہ کہ پاکستان نے پہلی بار اتنا بڑا ہدف حاصل کیا۔ اس میچ میں مجموعی طور پر 707 رنز بنے جو کہ پاکستان جنوبی افریقہ کے کسی ون ڈے میچ میں پہلی بار بنے۔ سلمان آغا اور محمد رضوان کی پارٹنر شپ 263 کی رہی، یہ چوتھی وکٹ پر پاکستان کی سب سے بڑی پارٹنرشپ ہے۔
اس سے پہلے محمد یوسف اور شعیب ملک کی چوتھی وکٹ پر 206 رنز کی پارٹنر شپ کا ریکارڈ موجود تھا۔ ایک اور ریکارڈ یہ ہے کہ پہلی بار کسی ون ڈے میچ میں پاکستان کے دو مڈل آرڈر بلے بازوں نے سینچریاں بنائیں۔ مین آف دا میچ سلمان آغا کو دیا گیا جنہوں نے ون ڈے کیریئر کی پہلی سینچری بنائی۔
میچ پاکستان جیت گیا۔ فائنل میں اللہ کرے آج کی طرح پرفارم کریں اور سہ ملکی ٹورنامنٹ جیتیں، اس سے انہیں چیمپینز ٹرافی کے لیے اعتماد ملے گا۔ البتہ دو تین نکات پر غور کرنا ہوگا۔
پاکستانی بولنگ نے دونوں میچز میں بہت زیادہ رنز دیے ہیں، ٹھیک ہے کہ پچز بیٹنگ ہیں مگر پھر بھی اتنے زیادہ رنز دینا تشویشناک ہے۔ شاہین، نسیم، حسنین، ابرار وغیرہ پر مشتمل بولنگ اٹیک کو ایسا کمزور اور اوسط سے کم درجے کا کھیل نہیں پیش کرنا چاہیے۔ حارث رؤف ان فٹ ہوکر چیمپیئنز ٹرافی سے باہر ہو چکے ہیں۔ بہرحال شاہین اور نسیم شاہ دونون لیڈنگ بولرز ہیں انہیں پرفارم کرنا چاہیے۔

فخر زمان نے 150 کے لگ بھگ سٹرائیک ریٹ سے چھ چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 41 رنز بنائے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

خاص کر پاکستانی بولرز اننگ کا آخری اوور بہت برا کر رہے ہیں۔ پچھلے میچ میں شاہین شاہ نے 25 رنز دے دیے، آج حسنین نے 19 رنز دے دیے ۔ اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے اگلے میچ میں حسنین کی جگہ عاکف جاوید کو کھلایا جائے، وہ بھی اچھی فارم میں ہیں، لیکن ممکن ہے ٹیم منیجمنٹ وننگ کمبی نیشن برقرار رکھے، البتہ حسنین کو سوچنا ہوگا کہ اس کی شارٹ پچ گیندیں ٹیم کو مہنگی پڑ رہی ہیں۔
ایک کوالٹی سپنر کی کمی بھی چبھ رہی ہے۔ ابرار نے پچھلے میچ میں اچھی بولنگ کرائی، اس بار وہ البتہ کچھ زیادہ رنز دے گئے، مگر پاکستانی ٹیم میں دوسرے سپیشلسٹ سپنر کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔
خوشدل شاہ اور سلمان آغا ان بیٹنگ پچوں پر مخالف بلے بازوں کو تنگ نہیں کر پا رہے۔ لگ رہا ہے کہ پاکستان کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ ہم سات بلے بازوں اور چار سپیشلسٹ بولرز کے ساتھ میچز کھیلیں گے اور پانچویں بولر کا کوٹہ خوشدل شاہ اور سلمان آغا ہی پورا کریں گے، یہ ایک کمزور کڑی ہے۔
فیلڈنگ خاصی ناقص رہی۔ ایسے بری فیلڈنگ کے ساتھ چیمپیئنز ٹرافی جیتنا خاصا مشکل کام ہے۔ اس پر مزید محنت کی ضرورت ہے۔

ملڈر کا ایک اچھا گیند پڑ کر تیزی سے اندر آیا اور بابراعظم ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بابر اعظم آج بھی بڑی اننگ نہیں کھیل سکے، مگر بابر اچھے ٹچ میں لگے، گیند ان کے بلے پر آ رہی تھی وہ اچھی ٹائمنگ سے سٹروکس کھیل رہے ہیں۔ توقع کرنی چاہیے کہ اگلے کسی بھی میچ میں وہ بڑی اننگ کھیل جائیں گے۔
فخر زماں اچھی فارم میں ہیں، یہ خوش آئند بات ہے۔ سعود شکیل کو اس بار ون ڈاؤن کھلایا گیا، لگتا ہے کہ آئندہ میچوں میں یہی ترتیب رہے گی، سعود شکیل سپنرز کو بہت اچھا کھیلتے ہیں۔ وہ بوقت ضرورت دو تین اوورز بھی کرا سکتے ہیں۔
رضوان اور سلمان آغا کی سینچریاں خوش آئند ہیں۔ کپتان اور نائب کپتان کا فارم میں ہونا ٹیم کے لیے بہت اچھا ہے۔
پاکستان نے ساڑھے تین سو رنز کا ہدف حاصل کر کے خاصا اعتماد حاصل کیا ہے۔ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اندھا دھند ہٹنگ کیے بغیر سمجھداری کے ساتھ کرکٹنگ شاٹس کھیل کر بھی ایک اوور میں آٹھ، نو رنز بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ پاکستانی سٹائل ہے جو آج اچھے انداز میں واضح ہوا۔

شیئر: