برطانیہ کی سپیشل فورسز کی مخالفت کے بعد افغانستان کی فوج کے دو ہزار سے زائد سابق کمانڈوز کی برطانیہ میں آباد کاری کی درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں، جس سے انہیں مبینہ جنگی جرائم کی گواہی دینے سے روک دیا گیا ہے۔
عرب نیوز نے بی بی سی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ برطانیہ کی وزارت دفاع نے عدالت میں سابق افغان فوجی کے کیس کے دوران انکشاف کیا کہ افسران نے ان ہزاروں افغان فوجیوں کی درخواستیں رد کیں جو طالبان کے خلاف جنگ میں برطانوی فوج کے شانہ بشانہ لڑے۔ اس سے قبل یہ کہہ کر انکار کیا گیا تھا کہ ایسا کرنا پالیسی نہیں ہے۔
بی بی سی کے پوچھنے پر وزارت دفاع نے یہ بتانے سے بھی انکار کیا کہ کیا سپیشل فورسز کے سینیئر افسران نے ’ٹرپل افغان‘ فوجیوں کی درخواستوں کی حمایت کی تھی۔
مزید پڑھیں
ٹرپل افغان نامی اس یونٹ کو برطانیہ نے فنڈ دیے تھے اور تربیت کی تھی۔ وہ طالبان کی حکومت آنے کے بعد خطرے سے دوچار تھے اور انہیں برطانیہ میں آباد ہونے کے لیے درخواست دینے کی اجازت دی گئی تھی۔
تاہم سپیشل فورسز کی جانب سے درخواستوں کی حمایت نہ کرنے پر تنازع پیدا ہوا ہے کیونکہ سپیشل فورسز کے خلاف افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کرنے پر انکوائری چل رہی ہے اور یہ افغان فوجی اس جگہ پر موجود تھے۔
اگر یہ افغان فوجی برطانیہ میں آباد ہو گئے تو انہیں ثبوت پیش کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ان میں بہت سے افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں۔
اس یونٹ کے کے ایک سابق افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگرچہ پناہ لینے کی درخواستیں رد کی گئی ہیں لیکن کچھ لوگوں کے لیے اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ التوا نے بہت سے مسائل کھڑے کیے ہیں۔ کچھ فوجیوں کو طالبان پکڑ چکے یا وہ مارے جا چکے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ افغان کمانڈوز کو لگتا ہے کہ انہیں سپیشل فورسز نے ’دھوکا‘ دیا ہے۔ ’اگر سپیشل فورسز نے اسے رد کیا ہے تو انہیں بتانا ہوگا کہ ایسا کیوں کیا؟‘
برطانوی وزارت دفاع نے کہا کہ سپیشل فورسز کے پاس پناہ کی درخواستیں ویٹو کرنے کا اختیار نہیں ہے، لیکن سابق وزیر دفاع اینڈریو موریسن نے کہا کہ انہوں نے بی بی سی کی تحقیقات کے بعد ایسا کیا۔
افغانستان میں کام کرنے والے برطانوی فوج کے سابق افسر مائیک مارٹن نے کہا کہ ’سپیشل فورسز نے افغان فوجیوں کی درخواستیں اس لیے روکیں کیونکہ وہ افغانستان میں ہونے والے مبینہ جنگی جرائم کے گواہ تھے جس کی انکوائری چل رہی ہے۔‘