جب پہلی سعودی ریاست کی تشکیل (1727-1818) کی تاریخ کی بات ہو تو عموماً افواج کی قیادت، اتحادیوں سے معاملہ بندی یا سیاسی بنیاد گزاری کرنے والے مردوں کا حوالہ دیا جاتا ہے لیکن اس عہد میں خواتین کا کردار بھی مردوں سے کسی طور کم نہیں تھا۔
پہلی سعودی ریاست کی خواتین نے جنگ کے میدانوں کے ساتھ ساتھ حکمت عملی تشکیل دینے اور معاشی ترقی میں اہم خدمات انجام دیں۔
تاریخ دان زین الشیران نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں پہلی سعودی ریاست کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کا کردار بنیادی اور اہمیت کا حامل تھا جس نے آگے چل کر انہیں سیاسی زندگی میں بھی اہم بنا دیا تھا۔‘
مزید پڑھیں
-
پہلی سعودی ریاست میں خواتین کے لباس کیسے ہوتے تھے؟Node ID: 644451
-
پہلی سعودی ریاست میں مہمانوں کا خیر مقدم کیسے کیا جاتا تھاNode ID: 644761
پہلی سعودی ریاست میں غیرمعمولی کردار کی حامل خواتین میں ایک شہزادی غالیہ البقمیہ ہیں۔ وہ ایک جارح عسکری و معاشی قائد کے طور پر ابھریں اور انہوں نے عثمانی فوجوں پر لرزا طاری کر دیا۔
دوسری موضی بنت سعد الدھلاوی ہیں جنہوں نے اپنی دانش اور شاعری سے رجحان ساز مزاحمت کی مثال قائم کر کے آنے والی کئی نسلوں کو متاثر کیا۔
انہی کاوشوں کے نتیجے میں پہلی سعودی ریاست کا دارالحکومت درعیہ سیاسی، علمی اور معاشی مرکز کی صورت میں ابھرا۔
زین الشیران نے کہا ’درعیہ شہر سیاسی، علمی اور معاشی پہلوؤں سے بہت اہمیت کا حامل رہا ہے اور اس عہد میں معاشرے کے تمام افراد کو مختلف شعبوں میں کردار ادا کرنا ہوتا تھا۔‘
موضی بنت سعد الدھلاوی شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر تعلیم بھی تھیں۔ ان کے علمی کارناموں کی گونج بھی کئی نسلوں تک پہنچی ہے۔

زین الشیران کے مطابق ’مودی بنت سعد الدھلاوی کی شعور بیدار کرنے والی شاعری نے پہلی سعودی ریاست کے شہریوں کے جذبے بلند کیے۔ انہوں نے حملہ آور عثمانی افواج کے خلاف لڑنے والوں کو خوب ہمت دلائی۔‘
’ان کی شاعری کے اثرات کئی نسلوں تک پھیلے ہوئے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پہلی سعودی ریاست کے قیام سے ہی خواتین کی شاعری کس قدر پُرقوت رہی ہے۔‘
موضی بنت السعد الدھلاوی خواتین کی اس بڑی تحریک کا حصہ تھیں جنہوں نے مملکت میں علم پروری میں بنیادی کردار ادا کیا۔
اس کے علاوہ رقیہ بنت عبداللہ السعد الصالحی ہیں جن کا کام دلال بنت مخلد الحربی کی کتاب ’مشرق وسطیٰ کی نمایاں خواتین‘ میں محفوظ ہے، انہوں نے حکمت سے بھرپور شاعری کے ذریعے سعودی شہریوں کو اپنی ثقافت کے تحفظ کے لیے تیار کیا۔
جہاں ایک طرف موضی بنت سعد الدھلاوی نے اپنی شاعری سے جذبہ مزاحمت کو مہمیز کیا وہیں شہزادی غالیہ البقمیہ نے جنگ میں میدانوں میں مردوں کی قیادت کر کے تاریخ رقم کی۔
زین الشیران نے مزید بتایا کہ ’عسکری تناظر میں سے نمایاں ترین نام شہزادی غالیہ البقمیہ کا ہے۔ انہوں نے پہلی سعودی ریاست کی مسلسل حمایت کی۔‘
مؤرخین نے 1118 اور 1831 میں عثمانی افواج کی مہم جوئیوں کو پسپا کرنے میں شہزادی غالیہ البقمیہ کی قبائلی رہنماؤں کے ساتھ مل کر عسکری کاوشوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

زین الشیران نے 19 ویں صدی میں سعودی عرب کا سفر کرنے والے سوئٹزرلینڈ کے مصنف جان لوڈونگ برکھارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’شہزادی غالیہ البقمیہ اپنی ٹھوس رائے اور عسکری و دفاعی امور میں صائب فہمی کے لیے معروف تھیں۔ وہ قبائل کو پہلی سعودی ریاست کے دفاع کے لیے مسلسل ترغیب دیتی رہیں۔‘
اس وقت سعودی ریاست کی فتح بہت اہم تھی کیونکہ عثمانی افواج شہزادی غالیہ البقمیہ کو ایک دیومالائی کردار سمجھنے لگی تھیں۔
زین الشیران کے مطابق ’ان کی کہانیاں صرف وہیں تک محدود نہیں جو نسل در نسل سننے کو مل رہی ہیں بلکہ قدیم مخطوطوں اور تاریخی دستاویزات میں بھی ان کی بھرپور کاوشوں کا تذکرہ ہے۔‘
جنگ اور فنون لطیفہ کے میدانوں کے علاوہ موضی بنت سعد الدھلاوی اور غالیہ البغمیہ معیشت کے شعبے میں بھی کم نمایاں نہیں تھیں۔

’جب میں درعیہ کے معاشی نظام کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ وہ ایک متحرک معیشت تھی۔ اس عہد میں یہ شہر سیاسی، معاشی اور علمی تبادلے کے احیاء کا استعارہ بن چکا تھا۔ یہاں کے کارخانوں میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی تھیں۔‘
زین الشیران کے مطابق ’جب ہم تجارت کی بات کرتے ہیں تو اس دور میں یہ عام چیز تھی۔ پہلی سعودی ریاست میں درعیہ کے مشہور بازار سُوق الموسم میں مرد و زن دنوں تجارتی سرگرمیاں کرتے تھے۔‘
مؤرخ دلال مخلد الحربی کی کتاب کے مطابق اس دور کی خواتین نے اپنی قیادت اور مشاورت کی صلاحیتوں کے ذریعے حکومتی امور اور سماجی استحکام کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
شہزادی موضی بنت سلطان ابی وھطان جیسی خواتین نے مفت تعلیم اور ضرورت مند مسافروں کے لیے رہائشی سہولیات کی فراہمی جیسے رفاہی کاموں میں نمایاں کارنامے انجام دیے۔

زین الشیران نے کہا کہ ’میرے خیال میں اس زمانے میں سیاست سب کے لیے ایک سائبان کی حیثیت رکھتی تھی کیونکہ اگر پہلی سعودی ریاست کی خواتین جنگ، علمی شعبوں اور معیشت کے میدانوں میں نمایاں تھیں تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں بھی کسی طور پیچھے نہیں تھیں۔‘
سعودی خواتین کا مملکت کے قیام کے ابتدائی دنوں سے سیاسی و سماجی کردار اہم رہا ہے۔ گو کہ تاریخ میں ان کا ذکر کبھی کبھار اوجھل ضرور ہوتا رہا لیکن وفقوں وقفوں سے ان کا حوالہ دوبارہ ابھر کا ضرور سامنے آیا۔
پہلی سعودی ریاست کی تاریخی کردار کی حامل خواتین کا بھرپور ورثہ وقت کی دھول کی نذر نہیں ہوا۔ ان کی علم، قیادت سازی اور مزاحمت کی روایت آج کے جدید دور کی ان خواتین کے لیے مشعل راہ ہے جو اب تعلیم، سیاست اور تجارت کے شعبوں میں سرگرم ہیں۔