پہلی سعودی ریاست میں مہمانوں کا خیر مقدم کیسے کیا جاتا تھا
مہمان جس قدر اہم ہوتا اسی معیار کی خوشبو مبخرے میں رکھی جاتی۔ (فوٹو العربیہ)
پہلی سعودی ریاست میں مہمانوں کا خیر مقدم (مبخرے) کے ذریعے معطر کرکے کیا جاتا تھا۔ مبخرے میں عود اور دیگر خوشبویات رکھ کر دھونی دی جاتی تھی۔
العربیہ نیٹ کے مطابق المبخرۃ پہلی سعودی ریاست میں مہمانوں کے اعزاز و اکرام کی علامت بن گیا تھا۔ اسے مختلف نام دیے جاتے تھے مثلا ’مدخنہ الطیب‘ کہا جاتا تھا کیونکہ اس میں خوشبو رکھ کر جلائی جاتی تھی جس سے دھواں اٹھتا تھا اور پورا ماحول معطر ہوجاتا تھا۔ بعض لوگ اسے ’بخور‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔
سعودی ورثے کے ماہر ولید العبیدی نے بتایا کہ بخور یا عود کا سعودی ورثے اور اس کی تاریخ میں بڑا مقام ہے۔ ایک جانب اس کی خوشبو پسند کی جاتی تھی تو دوسری جانب اسے مہمان کے احترام کی علامت کے طور پر بھی لیا جاتا تھا۔ مبخرے کے ذریعے مہمان کو معطر کرنے کا سلسلہ سعودی قہوہ پیش کرنے کے بعد کیا جاتا۔
ولید العبیدی نے بتایا کہ میزبان کے یہاں مہمان جس قدر اہم ہوتا اسی معیار کی خوشبو مبخرے میں رکھ کر معطر کیا جاتا تھا۔ مختلف قسم کی بخور ہوتیں۔ ان میں سے بعض بہترین خوشبو والی اور بعض اعلیٰ معیار کی ہوتی تھیں۔ ان میں عود ہندی اورعود کمبودی زیادہ مشہور ہیں۔
تجارتی قافلوں کے ذریعے عود جزیرہ عرب لائی جاتی تھی۔ اس کے دو راستے تھے ایک تو تاجروں کے قافلے عود نجد لاتے یہاں سے عراق پہنچاتے۔ ماض قدیم کے شعرا نے اپنے قصائد میں بخور کے گیت گائے ہیں۔
سعودی ورثے کے ماہر کا کہنا ہے کہ مبخرے کا سعودی ورثے سے گہرارشتہ ہے۔ تہواروں، سرکاری پروگراموں اور سماجی محفلوں میں مہمانوں کو معطر کرنے کے لیے مبخرے استعمال کیے جاتے تھے۔ مبخرے میں انگارے اور بخور رکھے جاتے تھے جس سے بہت اچھی خوشبو دھویں کی شکل میں اٹھتی تھی۔
حائل کا علاقہ مبخرے کی صنعت میں مملکت بھر میں سب سے زیادہ مشہور رہا ہے۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں