Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رحمان ملک کی سادگی اور قصہ نواب مری کی گرفتاری کا: عامر خاکوانی کا کالم

نواب خیر بخش مری کی اکبر بگٹی کے ہمراہ ایک تصویر۔ فائل فوٹو
یہ دور ہے جنرل پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کا۔ ایوان صدر میں آصف زرداری براجمان تھے، یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور رحمان ملک ان کے وزیر داخلہ اور طاقتور وزیر تھے۔ کراچی کے بحرانوں یا دیگر صوبوں میں موجود مسائل کے حل کے لیے رحمان ملک کو بھیجا جاتا تھا۔
کوئٹہ کے گورنر ہاؤس میں امن وامان سے متعلق ایک میٹنگ تھی۔ صوبائی کابینہ، صوبائی انتظامیہ کے علاوہ مختلف اداروں کے صوبائی سربراہان بھی موجود تھے۔ آئی جی پولیس بلوچستان نے اپنی بریفنگ کا آغاز بلوچستان کے تعارف، رقبہ اور آبادی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کیا کہ اس صوبے میں پشتون، بلوچ، ہزارہ، آبادکار اتنی تعداد میں موجود ہیں۔ اچانک وزیرداخلہ رحمان ملک کی آواز گونجی، ’سٹاپ اِٹ، یہ قوموں کی بنیاد پر تقسیم منافرت کو جنم دیتی ہے، لہٰذا غور سے سنیے، آج کے بعد جو بھی شخص بلوچستان میں رہتا ہے، وہ صرف بلوچ یا بلوچی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔‘
وزیرداخلہ رحمان ملک نے اپنی طرف سے شاید حب الوطنی کا مظاہرہ کیا، مگر ان کی یہ بات ایک ایسے محب الوطن کی تھی جو اس معاملے کا معمولی سا ادراک بھی نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی اُن میں اس معاملے کی اتنی سمجھ بوجھ تھی کیونکہ بلوچستان کی اندرونی صورتحال اس سے بہت مختلف تھی۔
وزیرداخلہ کی بات سن کر ایک معروف پشتون سیاستدان اور وزیر (جو بعد میں گورنر بلوچستان بھی بنے) نے اپنے قریب بیٹھے ایک اور پشتون وزیر کو سرگوشی کی، ’لو آج سے ہم بھی بلوچ بن گئے۔‘
یہ واقعہ سابق آئی جی بلوچستان محمد ریاض احمد کی کتاب ’بلوچستان۔ سیاسی کوہ تقصیر‘ میں بیان کیا گیا ہے۔ ریاض احمد نے بلوچستان میں ملازمت تو کی، مگر ان کی پیدائش بھی وہیں کی ہے، ان کے بزرگ پاکستان بننے سے پہلے سے وہاں پر آباد تھے، اس لیے وہ صوبے کے مسائل، ان کی پیچیدگی اور نزاکتوں سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے۔ اپنی کتاب میں انہوں نے بہت سے ایسے گوشوں پر روشنی ڈالی جنہیں سمجھنا بہت ضروری ہے۔
اس کتاب کے دو مزید واقعات بھی لکھتا ہوں مگر یہ درست ہے کہ بلوچستان سے باہر کے سیاستدان یا عام آدمی اس بات کو سمجھ نہیں سکتا کہ بلوچستان کے کسی پشتون کو بلوچ یا بلوچی کہنا کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔
ویسے تو مجھے کوئٹہ کے دو تین سفر اور وہاں صحافی دوستوں سے گھنٹوں گپ شپ کے بعد یہ سادہ بات سمجھ آئی کہ کسی بلوچ کو آپ بلوچی نہیں کہہ سکتے کہ بلوچی ان کی زبان ہے اور وہ خود کو بلوچ کہلانا پسند کرتے ہیں، بلوچی کہنا ہرگز نہیں۔ جبکہ بلوچستان کے رہنے والے کسی پشتون یا ہزارہ یا پھر وہاں کے آباد کار (سیٹلرز) کو بھی بلوچ نہیں کہا جا سکتا۔ ہر ایک کی اپنی شناخت اور انفرادیت ہے اور اس کا احترام کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔
بلوچستان ایک ایسا پیچیدہ اور تہہ در تہہ حقیقتوں سے معمور صوبہ ہے کہ اسے سمجھنا آسان نہیں اور اسے سمجھے بغیر اس کے مسائل کا حل نہیں نکل سکتا۔ سابق آئی جی ریاض احمد نے اپنی کتاب میں اوپر دیا گیا واقعہ بتانے کے بعد لکھا: ’پنجاب سے ڈیرہ غازی خان فورٹ منرو کے پہاڑ سے اترتے ہی کنگری کا قصبہ ہے اور بواٹا پوسٹ سے بلوچستان کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔ یہ وہ خطہ اور علاقہ ہے جو بتدریج شمالی بلوچستان کو جنوبی بلوچستان سے الگ کرتے ہوئے بلوچ  اور پشتون قبائل کے درمیان حد بندی کا کام کرتا ہے۔ کنگری قصبے سے جنوب مغرب میں بارکھان، کوہلو، ڈیرہ بگٹی، سبی، خضدار، قلات، مکران، چاغی، دالبندین اور ایرانی سرحد سے ملتا ہوا علاقہ بلوچ اور براہوی اقوام کی آماجگاہ ہے۔ جبکہ اسی کنگری قصبے سے شمالی اور شمال غربی علاقہ موسیٰ خیل، لورالائی، دُکی، ژوب، قلعہ سیف اللہ، مسلم باغ، زیارت، پشین، چمن کے علاقے میں پشتون قبائل صدیوں سے آباد ہیں۔ لسانی بنیادون پر یہ تقسیم کوئی آج کی نہیں بلکہ صدیوں پرانی ہے۔‘

بلوچستان میں ایک سرمچار حکام کے سامنے ہتھیار ڈال رہا ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

ریاض احمد نے اپنی کتاب میں ایک اور واقعہ بیان کیا۔ لکھتے ہیں کہ وہ کوئٹہ کے ایس ایس پی تھے، ’ایک صبح خبر ملی کی بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جسٹس نواز مری پر عدالت جاتے ہوئے قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ جاں بحق ہوئے۔ یہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا ابتدائی زمانہ تھا۔ صوبے کا ماحول پرسکون تھا، اس خبر نے ارتعاش پیدا کر دیا۔ امیرالملک مینگل بلوچستان کے تب گورنر تھے۔ گورنر ہاؤس میں اجلاس ہوا، مختلف صوبائی محکموں کے سربراہ اور اعلیٰ حکام۔ گورنر صاحب نے اپنے مختصر خطاب میں واقعے پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ہمیں جسٹس مری کے قتل میں مری قبیلے کے نواب خیر بخش مری کو گرفتار کرنا ہے۔ ہر ایک نے ہاں میں ہاں ملائی، ایس ایس پی ریاض احمد نے عرض کیا: سر! یہ خطرناک غلطی ہوگی، یہ درست ہے کہ مری قبیلے کی دونوں شاخوں گزینی مری اور بجارانی مری میں کشمکش چلی آ رہی ہے، گزینی مری کے سردار حکومت مخالف صفوں میں کھڑے ہیں تاہم اس ضیعف العمری میں نواب خیر بخش مری کی گرفتاری درست نہیں، اس گرفتاری کے بعد آپ کبھی بلوچستان کو پرسکون نہیں رکھ سکیں گے اور حالات بگڑ جائیں گے۔‘
گورنر صاحب نے حکم دیا کہ گرفتاری کا حکم ہے اور لازمی ہے۔ ایس ایس پی ریاض احمد اسی شام پولیس فورس لے کر نواب خیر بخش مری کے گھر پہنچ گئے۔ مہمان خانہ میں کئی سرکردہ لوگ بیٹھے تھے چونکہ یہ عید الفطر کا تیسرا دن تھا۔ انہوں نے احترام کے ساتھ کہا کہ ہم گرفتار کرنے آئے ہیں۔ سیاسی رہنما حبیب جالب مرحوم نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ایف آئی آر میں نامزدگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کئی ایف آئی آرز بلوچستان کے تمام لیڈروں کے خلاف کٹی ہوئی ہیں۔ بات ہو رہی تھی، نواب خیر بخش مری شاید ساتھ والے کمرے سے سن رہے تھے۔ اندر داخل ہوئے اور کہا، بیٹا مجھے دس منٹ دے دو، ابھی آتا ہوں اور پھر وہ چند منٹ کے بعد سر پر روایتی ٹوپی پہچنے، ہاتھ میں بیگ لیے، چھڑی کے سہارے آئے۔ ایس ایس پی نے انہیں سہارا دے کر اپنی گاڑی میں بٹھایا اور پھر ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ میں سپرنٹندنٹ جیل کے حوالے کیا۔ اگلی شام انہیں بلا کر ان کا ٹرانسفر کر دیا گیا۔ اسی گرفتاری کے چند دن کے بعد بلوچستان میں بدامنی کی ابتدا ہوئی اور صورتحال ایسی بگڑی کہ آج تک قابو میں نہ آئی۔‘
یادش بخیر خاکسار کو بھی نواب خیر بخش مری کی اسی گرفتاری کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آ گیا۔

سینیٹر رحمان ملک 2008 سے 2013 تک پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزیر داخلہ رہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

کوئٹہ کے ایک سینیئر صحافی نے ایک بار بتایا کہ بیگم طاہرہ مظہر علی خان (دانشور ادیب طارق علی کی والدہ اور معروف ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ) کوئٹہ تشریف لائیں، وہ شاید نواب خیر بخش مری کی کلاس فیلو رہی تھیں، فیملی تعلقات تھے۔ ان سے جیل میں ملاقات کا وقت لیا اور ملنے گئیں۔
واپسی پر بیگم طاہرہ مظہر علی خان نے بڑے کرب اور تکلیف سے بتایا کہ ضعیف العمر نواب مری نے ملاقات میں بڑے تاسف سے کہا، دیکھو انہوں نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟ (اصل جملہ انگریزی میں تھا۔) بیگم طاہرہ مظہر علی خان کے مطابق نواب مری کا یہ جملہ میرے دل میں ترازو ہو گیا ہے۔ بیگم صاحبہ نے خاصی بھاگ دوڑ اور کوشش کی کہ کسی طرح نواب صاحب کو رہا کرایا جا سکے، مگر فوری طور پر ایسا نہ ہو سکا۔
آخر میں ریاض احمد کی کتاب سے ایک دلچسپ واقعہ سنیے۔ اورماڑہ (بحیرہ عرب کے ساحل پر واقعہ قصبہ) میں وزیراعلٰی بلوچستان نے دورہ کیا۔ علاقے کے ڈپٹی کمشنر اتفاق سے تب کے وزیراعلٰی کے سالے تھے۔ علاقے کے کمشنر بڑے دھڑلے والے شخص تھے۔ رات رہنا پڑی۔ پورے اوماڑہ میں کوئی اچھا ریسٹ ہاؤس بھی نہیں تھا۔ قصبے میں میٹرس والا پلنگ ڈھونڈتے رہے، صرف ایک مل پایا۔ وہ وزیراعلٰی بلوچستان کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔ باقی انتظامی افسران نے لوہے کی چارپائیوں پر گزارا کیا۔
ادھر جب کمشنر صاحب سونے کے لیے اپنے کمرے میں گئے تو لوہے کی چارپائی دیکھ کر آگ بگولا ہوگئے، اپنی ڈی سی کو بلوایا اور خوب گرجے برسے، کہا کہ مجھے ابھی پلنگ چاہیے، میں چارپائی پر نہیں سوؤں گا۔ ڈپٹی کمشنر نے لاکھ سمجھایا کہ پورے علاقے میں دوسرا پلنگ دستیاب نہیں۔ کمشنر صاحب نے کہا، جہاں سے مرضی لے آؤ۔
ڈی سی صاحب پریشان ہوئے، ایک خیال ذہن میں آیا۔ رات کے 12 بج چکے تھے، وہ اپنے بہنوئی وزیراعلٰی صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے اور چلا کر کہا بھائی صاحب اٹھو۔ وزیراعلٰی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے کہ کیا ہو گیا۔ ڈی سی صاحب نے کہا، میری نوکری خطرے میں ہے اور آپ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہو۔ یہ کہہ کر اپنی شریف النفس وزیراعلٰی بہنوئی کا پلنگ اٹھوایا اور ان کے لیے لوہے کی چارپائی بچھا دی کہ آپ تو گزارا کر لو گے، مگر میرے کمشنر نے میری جان کھا رکھی ہے۔ وہ پلنگ کمشنر کو پیش کیا گیا، وہ سکون سے سوئے اور ڈی سی صاحب کی نوکری بچ گئی جبکہ وزیراعلٰی صاحب تلملا کر اپنی چارپائی پر پہلو بدلتے رہے۔
سابق آئی جی ریاض احمد جو وہاں تب موجود تھے، ان کے مطابق وہ وزیراعلٰی جام میر غلام قادر خان تھے جبکہ ان کے سالے مقامی ڈپٹی کمشنر عبداللہ جان گچکی تھے۔ یہ بھی بلوچستان جیسے صوبے میں ہی ممکن ہے جہاں کی وضعداری اور تعلق نبھانے کا ایک الگ ہی حساب کتاب ہے۔

شیئر: