راجہ انور ہمارے معروف لکھاری اور سیاسی ایکٹوسٹ ہیں۔ انہوں نے ایک ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ 60 اور 70 کے عشرے میں رائٹ اور لیفٹ ونگ کی سیاسی کشمکش عروج پر تھی، راجہ انور لیفٹ کے نمایاں طلبہ رہنماؤں میں سے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم پائی اور اس دور کی ایک بہت دلچسپ، تخلیقی اور منفرد یادگار اپنی کتاب ’جھوٹے روپ کے درشن‘ کی صورت میں چھوڑی۔
کہا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں یہ کتاب پڑھنا یونیورسٹی طلبہ کے لیے فیشن سمجھا جاتا تھا۔ جس نے نہ پڑھی ہو، وہ بھی اسے پڑھنے کا دعویٰ کرتا تھا۔
پنجاب یونیورسٹی میں یہ بڑی مقبول رہی، اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے، کئی پبلشرز نے جعلی ایڈیشن بھی چھاپے۔
مزید پڑھیں
-
’پاتال لوک‘ سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 885338
بھٹو دور میں راجہ انور طلبہ امور کے وفاقی مشیر بنے۔ بیگم نصرت بھٹو اس دلیر نوجوان سے شفقت سے پیش آیا کرتیں۔ بھٹو صاحب کی حکومت کے جانے کے بعد راجہ صاحب بیگم صاحبہ اور بے نظیر بھٹو کی تقاریر لکھتے رہے۔ پھر جلاوطن ہو کر افغانستان چلے گئے۔ کابل میں وہ میر مرتضیٰ بھٹو کے قریب رہے، مغلوب الغضب میر مرتضیٰ بھٹو کے غضب کا شکار بھی ہوئے، کہا جاتا ہے کہ راجہ انور کی قبر بھی کھود لی گئی تھی، کابل کی پل چرخی جیل میں دو ڈھائی برس تک اسیر بھی رہے۔
تخلیق کار راجہ انور نے ان سب تجربات کو کتابی شکل میں لکھ ڈالا جو کئی حوالوں سے بہت اہم، دلچسپ اور ریفرنس کتابیں بن چکی ہیں۔ ’دہشت گرد شہزادہ‘ (میر مرتضیٰ بھٹو پر لکھی کتاب)، ’قبر کی آغوش‘، ’بڑی جیل سے چھوٹی جیل‘ (اپنے دور اسیری کے تجربات)، ’بن باس‘ (کابل سے جرمنی جانے اور پھر یورپ بھر کی یاترا اور مختلف اسفار اور یاداشتیں) جبکہ اپنی طلبہ سیاست پر ان کی ایک کتاب زیر طبع ہے۔ ’ماضی کا حمام‘ ان کی منتخب تحریروں کا تازہ مجموعہ ہے۔
چند دن پہلے ختم ہونے والے لاہور کتاب میلہ سے یہ کتاب لی۔ اتنی دلچسپ ہے کہ ایک دو نشستوں میں پوری پڑھ ڈالی۔ اس کتاب کا ایک دلچسپ واقعہ ابھی گذشتہ دنوں ہونے والی ایک سیاسی پیشرفت کے سلسلے میں فٹ محسوس ہوا ہے۔ پہلے وہ واقعہ سن لیں۔
راجہ انور لکھتے ہیں کہ ’چار اپریل 1986 کی صبح میں لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترا اور سیدھا محترمہ بے نظیر بھٹو کے فلیٹ کی جانب روانہ ہوا۔ بے نظیر بھٹو پانچ چھ دن بعد پاکستان جا رہی تھیں۔ ان کا پیغام ملا کہ مجھے آ کر ملو، بعض امور میں مشورہ کرنا ہے جبکہ ان کے لاہور کے جلسہ کے لیے تقریر بھی لکھ لاؤں۔ اسی دن برمنگھم میں بی بی کا جلسہ تھا۔ جلسے کے بعد انہوں نے ملاقات کے لیے بلایا اور وہ سوال دہرایا جو وہ ہر ایک سے پوچھ رہی تھیں، تمہارے خیال میں پارٹی کے تنظیمی مسائل کے بارے میں کیسا رویہ اپنانا چاہیے؟
میں نے جواب میں عرض کیا، پارٹی کے تمام تنظیمی مسائل کا حل ایک ایسی جمہوری تنظیم میں مضمر ہے جسے کارکن اپنے ووٹوں سے منتخب کریں، نامزدگیاں ایک ایسے خوشامدی کلچر کو جنم دیتی ہیں جو امربیل کی مانند پارٹی کے وجود ہی کو چاٹ جاتا ہے۔

بے نظیر بھٹو نے پوچھا، جب تک پارٹی کا منتخب ڈھانچہ نہیں بنتا، اس وقت تک کیا کیا جائے؟ راجہ انور کا جواب تھا، ’تب تک پارٹی کے مختلف گروہوں اور مختلف طبقات کے مابین توازن قائم رکھا جائے۔ پارٹی کی یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ ہر گروپ دوسرے پر غداری کے الزام عائد کرتا ہے اور وہ اپنی اس جنگ میں قیادت کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ خود کو غیرجانبدار رکھیں تاکہ کارکن آپ کو اپنی آخری عدالت بھی مانیں اور اپنا قائد بھی تسلیم کریں۔ پارٹی کے کارکن نامزد عہدے داروں پر ہمیشہ تنقید کرتے چلے آئے ہیں مگر کبھی کسی کو اس بنا پر پارٹی سے خارج نہیں کیا گیا۔ آپ نے حال ہی میں جہانگیر بدر کو پارٹی کا صدر نامزد کیا۔ حسب توقع کچھ بیانات اس نامزدگی کے حق میں آئے، کچھ نے اس نامزدگی پر تنقید کی۔ نتیجہ یہ کہ اختلاف کی بنا پر لاہور کی تنظیم کے 17 کارکن اور عہدے دار معطل کر دیے گئے۔‘
محترمہ بے نظیر بھٹو نے بات کاٹ کر کہا، انہوں نے ڈسپلن توڑا ہے۔ میں پارٹی میں کسی طور نہ ڈسپلن کی خلاف ورزی برداشت کروں گی اور نہ گروہ بندی۔
راجہ انور نے کہا، بی بی جب تک پارٹی میں نظریات موجود ہیں، نظریاتی کشمکش بھی موجود رہے گی۔ جب تک طبقات موجود ہیں، طبقاتی گروہ بندی بھی ہو گی۔ یہ کوئی انہونی یا انجانی بات نہیں۔ اس طرح کا تضاد اور اس نوع کی تقسیم ہر ملٹی کلاس اور ہر نظریاتی پارٹی میں پائی جاتی ہے۔
محترمہ نے اس پر جھنجھلا کر کہا، پھر پارٹی بے شک ٹوٹ جائے، لیکن اگر رہے گی تو اسے ڈسپلن میں رہنا ہو گا۔ محترمہ نے ایسی قطعیت کے ساتھ یہ کہا کہ راجہ انور نے بحث کو لاحاصل جانتے ہوئے کہا، آپ درست فرما رہی ہیں یا پھر میری بات ٹھیک ہے، اس کا فیصلہ وقت پر چھوڑتے ہیں۔‘

یہ راجہ انور کی محترمہ بے نظیر بھٹو سے آخری ملاقات تھی۔ اپنی کتاب میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس کے بعد پارٹی دو بار اقتدار میں آئی، بی بی جلاوطن بھی ہوئیں، پارٹی پر ان کی قیادت مسلم رہی، کسی نے کبھی ان کو چیلنج نہیں کیا۔ نہ نظریاتی جھگڑے رہے نہ طبقاتی مجادلے کہ وہ نسل ہی درمیان سے اٹھ گئی جو فکری موشگافیوں پر مر مٹا کرتی تھی۔ کوئی تہہ خاک ہے تو کوئی اب راندہ درگاہ۔ تاہم اس تاریخی خلا کو جن لوگوں نے پر کیا، انہوں نے اپنی طرز کی گروہ بندیاں بنا لیں۔ ان نئی گروہ بندیوں کا راستہ ان کے معدے سے گزرتا۔‘
راجہ انور کی یہ کتاب پڑھ رہا تھا کہ خبر آئی تحریک انصاف کے سرگرم اور پرجوش کارکن نما رہنما شیر افضل مروت کو عمران خان نے پارٹی سے نکال دیا ہے۔ اس حوالے سے مختلف رہنما اپنی اپنی بات کہہ رہے ہیں۔
شہریار آفریدی کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان سے ملاقات میں شیر افضل مروت کے حق میں بات کریں گے، جنید اکبر بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ اس پر اپنی رائے پارٹی قائد کو بیان کریں گے۔ ادھر قومی اسمبلی میں شیر افضل مروت نے تقریر کرتے ہوئے اپنے پارٹی اراکین سے پوچھا کہ مجھے کیوں نکالا گیا ہے؟ اس کے جواب میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ہے کہ مروت بخوبی جانتے ہیں کہ کیوں نکالا گیا؟
تحریک انصاف کے اندرونی حلقے مروت کے نکالے جانے کی تین چار وجوہات بیان کرتے ہیں: شیر افضل مروت کی تیز دھار زبان، ان کا آزاد منش سرکش رویہ اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں پر کڑی تنقید اور ان پر یہ الزام کہ وہ کمپرومائز ہو چکے ہیں۔

مجھے ان الزامات کا سن کر راجہ انور کی باتیں یاد آئیں جو انہوں نے لندن میں بے نظیر بھٹو سے کہی تھیں کہ ہر نظریاتی پارٹی میں ایسی کشمکش رہے گی، پرانے اور نئے آنے والوں میں بھی مسائل رہتے ہیں، طبقاتی کشمکش اپنی جگہ برقرار ہے۔ راجہ انور کی باتوں میں یہ نکتہ بھی تھا کہ پارٹی کارکن اور رہنما اوپر سے کی گئی نامزدگیوں پر تنقید کرتے ہیں اور ہر گروپ دوسرے پر غداری کا الزام بھی لگاتا ہے۔ یہی سب کچھ اب تحریک انصاف میں بھی ہو رہا ہے۔
سوال مگر یہ ہے کہ بیرسٹر سلمان اکرم راجہ اور بعض دیگر وکلا رہنما تو پارٹی میں نئے آئے ہیں، ان کا تحریک انصاف کے نظریاتی کارکنوں سے کیا تعلق؟ جب پارٹی پر مشکل وقت آیا تھا تو شیر افضل مروت جیسے لوگ ہی کھڑے تھے۔ اب انہیں اگر پارٹی سے نکال باہر کرنے کے بجائے صرف پارٹی عہدوں سے دور رکھا جاتا اور انہیں پارٹی میں رہنے کی سپیس دی جاتی تو کیا یہ بہتر نہ ہوتا؟
خیبر پختونخوا کی اپنی ایک مخصوص سیاست ہے اور وہاں جن لوگوں کو قیادت نے اہم ذمہ داریاں دی ہیں، انہیں کارکن اور بعض دیگر رہنما تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ سب بڑی جمہوری پارٹیوں میں چلتا ہے۔ پارٹی قائد کو یہ سب برداشت کرنا چاہیے۔ وہ خود کو اس گروپنگ سے الگ اور ماورا رکھے اور کارکن اسے ہی آخری عدالت تصور کریں۔
افسوس کہ خان صاحب جیل میں اسیر ہونے کے باعث وسیع تر مشاورت سے بھی محروم ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے بعض فیصلوں میں عجلت اور مشاورت کی کمی جھلکتی ہے۔
خان صاحب کو اپنے سیاسی مخالف آصف زرداری ہی سے یہ بات سیکھنی چاہیے کہ شدید اختلافات کے باوجود زرداری صاحب نے چودھری اعتزاز احسن کو پارٹی سے باہر نہیں کیا۔

اعتزاز احسن تو پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ وکلا تحریک کے زمانے سے اعتزاز احسن کی سیاست پیپلز پارٹی کی سیاست سے مختلف اور کبھی متصادم رہی ہے۔ اس کے باوجود اعتزاز نے پارٹی چھوڑی اور نہ پارٹی قیادت نے انہیں باہر نکالا۔ انہیں برداشت کیا، سپیس دی، اس کا پارٹی کو فائدہ ہی ہوا۔
شیر افضل مروت کا مستقبل تو وقت طے کرے گا۔ بہرحال یہ اندازہ ہو گیا کہ تحریک انصاف میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کے لیے گنجائش اور جگہ کم ہو رہی ہے۔ یہ وہی غلطی ہے جو 38 برس قبل محترمہ بے نظیر بھٹو نے کی تھی۔ ان کے نزدیک بھی پارٹی ڈسپلن کسی کارکن یا رہنما کی قربانیوں اور جدوجہد سے زیادہ افضل اور اہم تھا۔ شاید یہی عمران خان بھی سوچتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کی یہ خوبی رہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے بلکہ انہیں خوشی خوشی اپنے خاص سٹائل سے دہراتے ہیں۔