Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مصطفیٰ عامر قتل کیس، پراسیکیوشن نے تفتیشی افسر سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی

مصطفیٰ قتل کیس کی تحقیقات کے لیے پولیس کی اعلٰی سطح کی کمیٹی بنائی گئی ہے۔ فوٹو: روئٹرز
کراچی میں مصطفیٰ عامر کے اغواء اور قتل کیس میں پیش رفت کے حوالے سے محکمہ پراسیکیوشن نے پولیس کے تفتیشی افسر سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ 
پراسیکیوشن کے ایک سینیئر رکن نے اردو  نیوز کو بتایا کہ تفتیشی افسر کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ملزم ارمغان کے خلاف درج چار مقدمات میں اب تک ہونے والی پیش رفت کی تفصیلات فراہم کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ کیس میں گرفتار ملزمان سے اب تک کی گئی تفتیش، ان سے حاصل ہونے والے شواہد اور انویسٹی گیشن کے نتائج سے متعلق جامع رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ 
محکمہ پراسیکیوشن نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا ہے کہ کیس میں کتنے گواہوں کے بیانات قلم بند کیے جا چکے ہیں اور آیا یہ بیانات عدالت میں موثر ثابت ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
پراسیکیوشن نے مزید پوچھا کہ آیا ڈی این اے، فنگر پرنٹس اور دیگر فرانزک شواہد کا جائزہ لینا شروع کیا ہے یا نہیں۔ 
انویسٹی گیشن کے دوران سی سی ٹی وی فوٹیج اور فنانشل ریکارڈ کو شامل تفتیش کرنے کا بھی کہا گیا ہے، تاکہ مقدمے میں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر پراسیکیوشن کو عدالت میں مضبوط کیس پیش کرنے میں مدد مل سکے۔ 
محکمہ پراسیکیوشن نے تفتیشی افسر کو ہدایت دی ہے کہ وہ تمام ضروری شواہد اور قانونی نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع رپورٹ جلد از جلد جمع کرائیں تاکہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔
اس سے قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو مصطفیٰ عامر قتل کیس کی فوری تحقیقات شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی جا سکتی ہے، جس میں ایف آئی اے سمیت دیگر ادارے شامل ہوں گے۔

قتل کیس کا مرکزی ملزم ارمغان پولیس کی تحویل میں ہے۔ فوٹو: سکرین گریب

جمعے کو کمیٹی کا اجلاس چیئرمین راجہ خرم نواز کی زیر صدارت ہوا تھا تاہم اجلاس میں آئی جی سندھ پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کے حکام شرکت نہیں کر سکے تھے۔
اجلاس کے دوران ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ سندھ نے کمیٹی کو بتایا کہ انہیں ایجنڈا تاخیر سے موصول ہوا، جس کے باعث بریفنگ ممکن نہیں ہے۔ تاہم، کمیٹی کے ارکان نے معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
ایڈیشنل سیکریٹری سندھ کے مطابق، کیس سندھ پولیس کے پاس ہے لیکن جیسے ہی یہ ایف آئی اے کو منتقل ہوگا تو مکمل تعاون فراہم کیا جائے گا۔
اجلاس میں رکن کمیٹی عبدالقادر پٹیل نے انکشاف کیا کہ جس جگہ پر یہ واقعہ پیش آیا، وہاں کرپٹو کرنسی اور منشیات کا کاروبار بھی ہوتا تھا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ وفاقی ادارے ڈارک ویب کے ذریعے غیر قانونی سرگرمیوں کی خرید و فروخت کو روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟
خیال رہے کہ کراچی میں نوجوان مصطفیٰ عامر کو6 جنوری اغوا کرکے بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا، مصطفی لاش بلوچستان کے ایک شہر کے ویران علاقے سے برآمد ہوئی تھی۔
کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی پولیس کی اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ پہلے مرحلے میں مختلف کیسز میں نامزد ملزمان کے کرائم ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے گا۔ تفتیش ملزمان کے بیانات کی روشنی میں اس کیس سے جڑے تمام کرداروں کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے کمیٹی کام کرے گی۔

 

شیئر: