Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مصطفیٰ قتل کیس، پولیس ملزم ارمغان کے مبینہ تشدد کی شکار لڑکی تک پہنچ گئی

ارمغان کا کال سینٹر 200 سسٹمز پر مشتمل تھا، جہاں جدید سافٹ ویئر استعمال کیے جا رہے تھے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے کال سینٹر کی تحقیقات تاحال شروع نہ ہو سکیں۔
تفتیشی ذرائع کے مطابق جائے وقوعہ سے لیپ ٹاپ اور دیگر گیجٹس اَن پلگ کرنے سے کوئی خاطر خواہ شواہد حاصل نہیں کیے جا سکے ہیں۔
جمعرات کو کراچی کے جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں مصطفیٰ عامر قتل کیس کی سماعت ہوئی، جہاں ملزم ارمغان کے ملازم اور کیس کے اہم گواہ غلام مصطفیٰ کا بیان قلمبند کیا گیا۔
گواہ نے عدالت کو بتایا کہ ’چھ جنوری کی رات ایک لڑکا ارمغان کی رہائش گاہ آیا تھا، ہم نے معمول کے مطابق دروازہ کھولا جیسے کسی کے آنے پر کرتے ہیں، تاہم اس کی شکل واضح طور پر نہیں دیکھی۔ کچھ دیر بعد شور شرابے کی آوازیں آنے لگیں اور پھر فائرنگ کی آوازیں آئیں۔‘
’اس دوران میں اپنے کمرے میں واپس چلا گیا۔ فجر کی نماز کے بعد جب جاگا تو ارمغان اور اس کا دوست موجود تھے، لیکن ہمیں اوپر جانے کی اجازت نہیں تھی اور ہم صرف فون پر پانی اور کھانے کی درخواست کر سکتے تھے۔‘
گواہ کے مطابق ’چند دن بعد پولیس نے چھاپہ مارا اور فائرنگ ہوئی، جس کے بعد ہم چھپ گئے اور پھر وہاں سے فرار ہو گئے۔ پھر جب ہم اپنا سامان لینے واپس آئے تو پولیس نے ہمیں حراست میں لے لیا۔ بعد میں ہمیں رہا کر دیا گیا، مگر کچھ دن بعد پولیس نے دوبارہ فون کرکے طلب کیا۔ سماعت کے دوران عدالت نے گواہ سے ملزمان کو شناخت کرنے کا کہا جس پر غلام مصطفیٰ نے ملزم ارمغان اور شیراز کو عدالت میں شناخت کر لیا۔‘
ارمغان کا نیٹ ورک اور کال سینٹرز
انسویسٹی گیشن پولیس کے ایک سینیئر افسر نے اردو نیوز کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ملزم ارمغان کی کمپنی  اے آئی ڈی 2017 میں رجسٹرڈ ہوئی تھی، جو پہلے اس کے والد کے نام پر تھی۔ ارمغان  اے آئی ڈی اور  توکل ایسوسی ایٹس کے نام سے دو کال سینٹرز چلا رہا تھا، جو ایف بی آر اور ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ تھے۔‘

ماہرین کے مطابق کرپٹو کے ذریعے منی لانڈرنگ کے شواہد حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تحقیقاتی ذرائع کے مطابق ارمغان کا کال سینٹر 200 سسٹمز پر مشتمل تھا، جہاں جدید اور مہنگے سافٹ ویئر استعمال کیے جا رہے تھے۔ مزید یہ کہ ملزم کے متعدد مرچنٹ اکاؤنٹس کا انکشاف ہوا ہے، جو جعل سازی سے حاصل شدہ رقم کی منتقلی کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔
کرپٹو کرنسی کے ذریعے منی لانڈرنگ
تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ارمغان جعل سازی سے حاصل شدہ رقم کو براہ راست کرپٹو کرنسی میں منتقل کرتا تھا۔ اگر 2017 سے اب تک کا تخمینہ لگایا جائے تو ملین ڈالرز کی مالیت کرپٹو میں تبدیل کی جا چکی ہے۔
سائبر سکیورٹی ماہرین کے مطابق کرپٹو کے ذریعے منی لانڈرنگ کے شواہد حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے، کیونکہ بیرون ملک رقم براہ راست کرپٹو  اے ٹی ایمز میں منتقل کی جاتی تھی۔
تحقیقات میں تاخیر، شواہد اکٹھے کرنے میں مشکلات
اگرچہ تفتیشی ادارے شواہد اکٹھے کرنے میں مصروف ہیں، مگر ارمغان کے کال سینٹر اور اس کی مالی سرگرمیوں کی گہرائی میں جانے کے لیے ابھی تک تحقیقات کا باضابطہ آغاز نہیں کیا گیا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مصطفیٰ عامر اغوا اور قتل کیس میں گرفتار ملزم ارمغان قریشی کے جسمانی ریمانڈ میں پانچ دن کی توسیع کر دی تھی۔
اس سے قبل جمعرات کو انسداد دہشت گردی عدالت میں مصطفیٰ عامر اغوا اور قتل کیس کی سماعت ہوئی، جہاں عدالت کے حکم پر ملزم ارمغان کی والدین سے کمرۂ عدالت میں ملاقات کرائی گئی۔ 
ملزم ارمغان کے وکیل عابد زمان ایڈووکیٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’ملزم کے ساتھ پولیس قید میں اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا، اور اس کی صحت بگڑ رہی ہے۔‘

جمعرات کو انسداد دہشت گردی عدالت میں مصطفیٰ عامر اغوا اور قتل کیس کی سماعت ہوئی (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

پولیس اپنی تفتیش کرے گی، اور ہم قانونی طور پر اپنا دفاع کریں گے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ملزم کے ساتھ مناسب سلوک کیا جائے اور اس کے بنیادی حقوق کا خیال رکھا جائے۔
پولیس نے عدالت سے مید 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔ 
دوران سماعت ملزم ارمغان کے والدین نے ان سے ملاقات کی کوشش کی، تاہم پولیس نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر انہیں روک دیا۔ عدالت نے واضح کیا کہ ملزم سے ملاقات صرف عدالت میں ممکن ہو گی۔
ملزم ارمغان کی وکالت کے معاملے پر بھی عدالت میں گفتگو ہوئی۔
ارمغان کی والدہ نے انہیں وکیل طاہر الرحمان کی خدمات لینے کا مشورہ دیا، تاہم ملزم نے عدالت میں عابد زمان ایڈووکیٹ کو اپنا وکیل مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ عدالت نے اس فیصلے کی توثیق کر دی۔
مزید برآں کیس میں ایک اور اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں پولیس نے ارمغان کے مبینہ تشدد کا شکار ہونے والی لڑکی زوما کو تلاش کر لیا ہے۔
تفتیشی افسر کے مطابق ’متاثرہ لڑکی کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے گا، جبکہ چشم دید گواہوں کے 164 کے بیانات بھی ریکارڈ کیے جائیں گے۔

 

شیئر: