جعلی دستاویزات پر افریقہ سے درآمد کیے گئے 26 بندر کراچی میں کیوں پھنسے ہوئے ہیں؟
جعلی دستاویزات پر افریقہ سے درآمد کیے گئے 26 بندر کراچی میں کیوں پھنسے ہوئے ہیں؟
منگل 4 مارچ 2025 15:46
زین علی -اردو نیوز، کراچی
بندروں کو درآمد کرنے والی کمپنی کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ موقف سامنے نہیں آ سکا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر افریقہ سے لائے گئے 26 زائد بندر این او سی جعلی ہونے کی بنا پر پکڑے گئے تھے اور ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ان کی قانونی حیثیت کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔
ان بندروں کو رواں سال کے آغاز میں اس وقت محکمہ کسٹمز نے کراچی ایئرپورٹ سے تحویل میں لیا تھا جب ان کو درآمد کرنے والی کمپنی مطلوبہ قانونی دستاویزات پیش کرنے میں ناکام رہی اور ان کی پیش کردہ این او سی جعلی ثابت ہوئی۔
کراچی ایئر پورٹ پر تعینات محکمہ کسٹمز کے ایک افسر کے مطابق ان بندروں کی درآمد کے لیے پیش کی گئی این او سی جعلی ثابت ہوئی جبکہ ان کے طبی معائنے سے متعلق فراہم کردہ سرٹیفکیٹس پر بھی شکوک و شبہات ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 29 جنوری کو محکمہ کسٹمز نے اس معاملے پر محکمہ وائلڈ لائف کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا اور قانونی رہنمائی طلب کی، مگر اب تک کوئی واضح کارروائی سامنے نہیں آ سکی اور یہ بندر تاحال کراچی میں ہی موجود ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی جانور جعلی این او سی یا مشکوک دستاویزات کے ذریعے ملک میں لایا جائے تو اسے فوری طور پر واپس اسی ملک ڈی پورٹ کیا جانا ضروری ہوتا ہے جہاں سے وہ درآمد کیا گیا ہو۔ اس معاملے میں تاحال اس قانون پر عمل درآمد نہیں ہوا اور بندر ایک قانونی خلا میں پھنسے ہوئے ہیں۔
محکمہ وائلڈ لائف سندھ کے سربراہ جاوید احمد مہر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ صرف جعلی کاغذات تک محدود نہیں بلکہ اس میں حیاتیاتی خطرات بھی شامل ہیں۔
ان کے مطابق دنیا بھر میں جنگلی جانوروں کی بین الاقوامی نقل و حرکت کے دوران سخت طبی جانچ لازم ہوتی ہے تاکہ کوئی وائرس یا بیماری ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل نہ ہو۔
’افریقہ سے لائے گئے ان بندروں کے طبی سرٹیفکیٹس کی صداقت مشکوک ہے اور اس وجہ سے ان میں کسی متعدی بیماری کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔‘
ماہرین کے مطابق افریقی بندروں میں زونوٹک وائرسز پائے جانے کا خطرہ رہتا ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ اگر ان جانوروں کا بروقت اور درست طبی معائنہ نہ کیا جائے تو یہ وائرس مقامی انسانوں یا جانوروں میں منتقل ہو سکتے ہیں، جو بڑے پیمانے پر صحت عامہ کا مسئلہ بن سکتا ہے۔
کسٹمز حکام کے مطابق کمپنی کو بارہا طلب کیا گیا مگر وہ مکمل اور قانونی دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)
کسٹمز حکام کا کہنا ہے کہ ان بندروں کو کراچی کے ایک نجی مقام پر عارضی طور پر رکھا گیا ہے جہاں ان کی دیکھ بھال کا بندوبست کیا گیا ہے۔ تاہم وہاں کے حفاظتی اور طبی انتظامات پر تشویش پائی جاتی ہے۔
محکمہ وائلڈ لائف کے افسر نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر جلد قانونی کارروائی اور مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو یہ معاملہ نہ صرف مقامی سطح پر نقصان دہ ہو سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
دوسری جانب ان بندروں کو درآمد کرنے والی کمپنی کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ موقف سامنے نہیں آیا ہے۔
کسٹمز حکام کے مطابق کمپنی کو بارہا طلب کیا گیا مگر وہ مکمل اور قانونی دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اب یہ معاملہ محکمہ کسٹمز، محکمہ وائلڈ لائف اور وفاقی اداروں کے زیر غور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر قانونی تقاضے پورے نہ کیے گئے تو بین الاقوامی سطح پر جنگلی حیات کی تجارت اور منتقلی کے اصولوں کی خلاف ورزی کے باعث پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ان بندروں کے ساتھ پاکستان میں جنگلی جانوروں کی درآمد اور برآمد سے متعلق قوانین اور حفاظتی اقدامات کے نفاذ کی آزمائش بھی جڑی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملے میں قانون کی مکمل پاسداری ہوگی یا یہ معاملہ بھی ماضی کے دیگر مقدمات کی طرح نظرانداز کر دیا جائے گا؟