کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک حاضر دماغ گھریلو خاتون نے اُس وقت ڈکیتی کی کوشش ناکام بنا دی جب شام کے وقت ایک نقاب پوش خاتون پانی پینے کے بہانے ان کے گھر میں گُھسنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اس نقاب پوش خاتون کے ساتھ دو مرد بھی تھے۔ تاہم، خاتون نے صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فوراً دروازہ بند کرنے کی کوشش کی اور شور مچانا شروع کر دیا تاکہ کسی طرح مدد مل سکے۔
پولیس کے مطابق ملزمان نے گھریلو خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا تاہم خاتون نے ہمت اور بہادری سے ملزمان کو گھر میں داخل ہونے سے روک لیا۔ ڈاکو خاتون کے شور سے گھبرا کر فوراً بھاگ گئے۔
مزید پڑھیں
پولیس کا کہنا ہے کہ آج کل شہر قائد میں ڈکیتی کی وراداتوں میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی سرگرم نظر آ رہی ہیں۔ کورنگی کے علاقے اللہ والا ٹاؤن میں اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس نے حاصل کی جس میں ایک گینگ کے ساتھ خاتون کو واردات میں حصہ لیتے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ واقعہ 18 فروری بروز منگل شام تقریباً پانچ بجے پیش آیا تھا۔ پولیس کے مطابق واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزمان کے چہرے واضح طور پر نظر آ رہے ہیں، اور کوشش ہے کہ ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کر لیا جائے۔
پولیس نے واردات کا مقدمہ درج کر لیا ہے اور ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے۔ پولیس واردات میں ملوث خاتون اور مردوں کی گرفتاری کے لیے علاقے کی ناکہ بندی کر کے مختلف جگہوں پر چھاپے مار رہی ہے۔

جرائم کا بڑھتا ہوا رجحان
کراچی میں گزشتہ چند برسوں میں ڈکیتی، چوری، اور رہزنی کی وارداتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ان وارداتوں میں نئی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے گینگز خواتین کو بھی شامل کر رہے ہیں تاکہ وارداتیں زیادہ آسانی سے انجام دی جا سکیں۔ اس حکمتِ عملی کا مقصد متاثرہ افراد کا اعتماد حاصل کرنا اور کم از کم مزاحمت کا سامنا کرنا ہے۔
اس قسم کی وارداتوں میں خواتین کا کردار اکثر ’بیت‘ یعنی جھانسہ دینے والے کا ہوتا ہے، جو مکینوں یا متاثرہ افراد کا اعتماد جیت کر دیگر مجرموں کے لیے راستہ ہموار کرتی ہیں۔
جامعہ کراچی کے شعبہ جرمیات کی سربراہ ڈاکٹر نائمہ سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں جرائم پیشہ افراد نے جرائم کی وارداتوں کے لیے اپنے گروہ میں خواتین کو بھی شامل کرنا شروع کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شہریوں کو اپنی حفاظت کے لیے اضافی احتیاط برتنی چاہیے، سی سی ٹی وی کیمروں کا استعمال مزید بڑھایا جائے اور ان کو ایسے مقامات پر نصب کیا جائے جہاں زیادہ سے زیادہ ریکارڈنگ ہو سکے۔‘

خواتین کا کردار مجرم یا متاثرہ؟
سماجی کارکن ایڈووکیٹ ساجد لطیف کا کہنا ہے کہ خواتین کے جرائم میں ملوث ہونے کے پیچھے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں غربت، بے روزگاری، سماجی دباؤ، یا مجرمانہ نیٹ ورک کا حصہ بننا شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو ایسے نیٹ ورک سے نکالنے اور انہیں بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے معاشرتی سطح پر اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے۔
ساجد لطیف نے مزید کہا کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کے رجحان پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور عوامی نمائندے مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔ ’تعلیم، تربیت، اور خواتین کو خود مختار بنانے کے منصوبے متعارف کرائے جائیں تاکہ وہ معاشرتی دباؤ یا جرائم کی جانب راغب ہونے سے بچ سکیں۔‘