Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد میں پلاٹ، اوورسیز پاکستانی ڈالرز میں ادائیگی پر پریشان

سی ڈی اے نے اسلام آباد کے نئے سیکٹر سی 14 میں پلاٹس کی ادائیگی ڈالر میں کرنے کا کہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک نئے سیکٹر میں اوورسیز پاکستانیوں کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے بعد رقم ڈالر یا پاکستانی روپوں میں وصول کرنے کا تنازع چل رہا ہے۔
اس تنازع کا آغاز اس وقت ہوا جب وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) نے سمندر پار پاکستانیوں کے لیے اسلام آباد کے نئے سیکٹر سی 14 میں رہائشی پلاٹس کی بیلٹنگ کی، اور اس کے لیے امریکی ڈالرز میں ادائیگی کی شرط رکھی۔
تاہم پلاٹوں کی قرعہ اندازی میں کامیاب ہونے والے اوورسیز پاکستانیوں نے ڈالر میں ادائیگی کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا اور وِد ہولڈنگ ٹیکس/ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے استثنیٰ دینے کا مطالبہ بھی کیا۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے سی ڈی اے کے ترجمان شاہد کیانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ سیکٹر سی 14 میں رہائشی پلاٹس کی بیلٹنگ کے لیے مجموعی طور پر 1700 سمندر پار پاکستانیوں نے درخواستیں جمع کروائی تھیں، جن کو ترتیب وار آگے بڑھایا گیا ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ سیکٹر سی 14 میں ایک پلاٹ کی مالیت 6 کروڑ روپے مقرر کی گئی ہے، اور رقم کی ادائیگی 4 اقساط میں مکمل کرنی ہے۔
شاہد کیانی کے مطابق ڈالر اور پاکستانی کرنسی کے تنازع کے باوجود 1700 میں سے 35 درخواست گزاروں نے ڈالر میں ہی پہلی قسط کی ادائیگی کر دی ہے تاہم سی ڈی اے اس بات پر غور کر رہا ہے کہ پاکستانی روپوں میں رقوم وصول کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا جائے۔
’اگر ہمیں تمام پلاٹس کی ادائیگی ڈالر میں نہیں بھی ملتی تو پھر پاکستانی روپے میں ہی رقم کی وصولی پر غور کریں گے، تاہم کسی بھی صورت میں سی ڈی اے پلاٹس کی فروخت کو ممکن بنا لے گا۔‘

اوورسیز پاکستانیوں نے وِد ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ فوٹو: وائٹ سٹار

جب ان سے پوچھا گیا کہ سی ڈی اے ان پلاٹس کی قیمت ڈالر میں ہی کیوں وصول کرنا چاہتا ہے، تو شاہد کیانی نے بتایا کہ ادارے نے ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے سمندر پار پاکستانیوں سے ڈالر میں رقوم وصول کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اور اسی حکمت عملی کے تحت بیلٹنگ کا عمل مکمل کیا گیا ہے۔
ترجمان سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ درخواست گزاروں کی پہلی فہرست پر کام مکمل ہونے کے بعد اگلے درخواست گزاروں سے پہلی قسط کی وصولی کا عمل شروع کیا جائے گا۔
ڈالر میں ادائیگی پیچیدہ کیوں؟ 
ریئل اسٹیٹ شعبے کے ماہر احسن ملک کے مطابق سی ڈی اے یا وفاقی حکومت کا اوورسیز پاکستانیوں سے پلاٹوں کی قیمت ڈالر میں وصول کرنے کا منصوبہ بظاہر تو اچھا ہے، تاہم یہ زیادہ حد تک قابل عمل نہیں ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ’سی ڈی اے کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سمندر پار پاکستانی اچھے روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جاتے ہیں، اُن کے پاس دولت کا کوئی بڑا ذخیرہ موجود نہیں ہوتا اور وہ بہت سوچ سمجھ کر اپنی رقم خرچ کرتے ہیں۔‘
احسن ملک کے مطابق اگر سمندر پار پاکستانی ڈالر میں ادائیگی کرتے ہیں تو وہ بینکوں کے سوالات کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ٹیکسز بھی ادا کریں گے جو اُن کی جیب پر بھاری پڑیں گے۔
’اسی لیے اُنہوں نے ڈالر میں ادائیگی کے بجائے پاکستانی روپے میں پلاٹس کی قیمت وصول کرنے اور وِد ہولڈنگ ٹیکس/ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے استثنیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔‘

 

شیئر: