کراچی میں اب الیکٹرانکس آئٹمز اور گھریلو اشیاء کے بعد کپڑے اور جوتے بھی قسطوں پر فروخت کیے جا رہے ہیں۔ مختلف مقامی اور بین الاقوامی برانڈز نے ’بائے ناؤ، پے لیٹر‘ سکیم متعارف کروا کر صارفین کو بغیر فوری ادائیگی کے خریداری کا موقع فراہم کیا ہے۔
اس رجحان نے خاص طور پر نوجوان خواتین اور طلبہ میں مقبولیت حاصل کر لی ہے، جو کم بجٹ کے باوجود برانڈڈ ملبوسات خریدنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
بائے ناؤ، پے لیٹر سکیم کیسے کام کرتی ہے؟
متعدد مشہور فیشن برانڈز اور آن لائن سٹورز نے مختلف مالیاتی اداروں اور ڈیجیٹل ادائیگی کے پلیٹ فارمز کے ساتھ اشتراک کیا ہے۔
مزید پڑھیں
صارفین آن لائن یا سٹور پر جا کر اپنی پسند کے ملبوسات منتخب کرتے ہیں اور مکمل رقم ادا کرنے کے بجائے مخصوص قسطوں میں ادائیگی کا انتخاب کرتے ہیں۔ عام طور پر قسطوں کی ادائیگی تین ماہ تک کے عرصے میں کی جاتی ہے۔
سہولت یا مالی بوجھ؟
عالیہ رضوی جو ایک نجی یونیورسٹی کی طالبہ ہیں، نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے ایک تقریب کے لیے مہنگا لباس لینا تھا، لیکن یکمشت ادائیگی میرے بجٹ سے باہر تھی۔ قسطوں میں خریدنے کا آپشن ملا تو میں نے فوراً لے لیا۔ اب مہینے میں تھوڑی تھوڑی رقم ادا کر رہی ہوں، جو میرے لیے زیادہ آسان ہے۔‘
تاہم کچھ صارفین اس سہولت کو غیرضروری مالی بوجھ بھی قرار دیتے ہیں۔
سعدیہ انور جو ایک بینک میں کام کرتی ہیں کہتی ہیں کہ ’یہ سہولت وقتی طور پر بہت اچھی لگتی ہے، لیکن اگر آپ غیر ضروری خریداری میں پڑ گئے تو ہر ماہ قسطیں دینا مشکل ہو سکتا ہے۔ کئی بار لوگ ان سہولیات کے باعث بجٹ سے زیادہ خرچ کر بیٹھتے ہیں۔‘
برانڈز اور کاروباری حکمت عملی
کراچی میں کام کرنے والے کئی بڑے برانڈز اس سکیم کو اپنی سیلز بڑھانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ ان برانڈز کے مطابق اس سہولت کے بعد ان کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہ طبقہ جو مہنگے کپڑے خریدنے سے ہچکچاتا تھا، اب قسطوں کی وجہ سے آسانی سے خریداری کر رہا ہے۔
ایک فیشن برانڈ کے مارکیٹنگ کے شبعے سے وابستہ عزیر سلیم کا کہنا ہے کہ ہم نے دیکھا کہ نوجوان طبقہ خاص طور پر خواتین، قسطوں کی سہولت سے بہت فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ شادی بیاہ، تہوار اور دیگر تقریبات کے دوران ہمارا کاروبار مزید بڑھ جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ پرائیویٹ کمپنیوں نے برانڈز سے ریٹ اور پالیسی طے کر رکھی ہے، جس کے تحت وہ صارفین کو یہ سہولت فراہم کررہے ہیں۔ پہلے یہ صرف آن لائن کارڈ کے ذریعے خریداری کرنے والے صارفین کے لیے آپشن تھا لیکن اب کچھ دکاندار کیش پر بھی یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ جس کے لیے انہوں نے ایک طریقہ کار واضح کر رکھا ہے۔ ان میں اکثریت ایسے خریدار افراد کی ہے جو ان دکانوں کے پرانے گاہک ہیں اور دکاندار ان پر بھروسہ کرتے ہیں۔
عزیز سلیم نے مزید بتایا کہ اس کام کے لیے رجسٹر اور رسیدیں بنائی گئی ہیں جن کے ذریعے سے ریکارڈ کو ترتیب دیا جا رہا ہے۔
کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں قائم ایک برانڈڈ کپڑوں کی دکان کے مالک فروز باسط نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کئی سالوں سے لڈیز کپڑوں کا کاروبار کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’بڑھتی مہنگائی نے لوگوں کی قوت خرید کو متاثر کیا ہے۔ کچھ سال قبل 8 سے 10 ہزار روپے میں ملنے والا خواتین کا لباس اب کم سے کم 20 سے 22 ہزار روپے میں مل رہا ہے، اتنے مہنگے کپڑے خریدنا آسان نہیں رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ سیل میں کمی کی اور کاروبار متاثر ہونے کی وجہ سے ہم مختلف برانڈز کے کپڑوں کو دو سے تین قسطوں میں فروخت کرنے کی آفر شروع کی ہے۔ ’اس سے خریداروں کو بھی آسانی مل رہی ہے اور ہمارا کاروبار بھی بہتر ہورہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک مشکل کام ہے، لیکن ہم ابھی پہلے مرحلے میں یہ آفر ان کسٹمرز کو دے رہے ہیں جو کئی سالوں سے ہماری دکان سے خریداری کررہے ہیں، وہ ہمیں اور ہم ان کو جانتے ہیں۔
