بلوچستان میں جعفر ایکسپریس ریل گاڑی پر دہشت گردوں کے غیرمعمولی حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال نے جہاں کئی طرح کی بحث کا آغاز کیا ہے وہیں اس میں ایک سیاسی جماعت کے مبینہ کارکنوں کی جانب سے سانحے کی خبروں پر سوشل میڈیا پر آنے والا ری ایکشن بھی شامل ہے۔
مختلف نیوز اداروں کی جانب سے سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک پر اس واقعے سے متعلق شیئر کی جانے والی خبروں پر قہقہوں والے لافٹر ایموجی ردعمل کے طور دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
ان پر کون سے لوگ ہنس رہے ہیں؟ اس کو دیکھنے کے لیے اگر ان پروفائلز پر جایا جائے تو بظاہر ایسے اکثر افراد کی پروفائلز تحریک انصاف کی طرف جھکاؤ کا اشارہ دے رہی ہوتی ہیں۔
مزید پڑھیں
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر بغیر کسی تذبذب کے دہشت گردی کے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور ساتھ ہی حکومت پر تنقید بھی کی ہے۔
دوسری جانب ان کی مخالف سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) نے جعفر ایکسپریس واقعے پر سوشل میڈیا پر ری ایکشن کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے تحریک انصاف کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس واقعے کی خبروں پر لافٹر ایموجی بھیجنے والے افراد نے تحریک انصاف کی مذمتی پوسٹ پر یہ ایموجی نہیں لگائے بلکہ دکھ کا اظہار کیا ہے۔
صرف 10 افراد نے ہنسنے والے ایموجی لگائے ہیں، جن کی پروفائلز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تعلق علیحدگی پسندوں سے ہے اور کئی ایک میں افغانستان کا جھنڈا بھی دکھائی دے رہا ہے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی اختلافات انسانی المیے سے بڑے ہو چکے ہیں؟
اس پر بات کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی شعبہ اپلائیڈ سائیکالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر رافعیہ رفیق کہتی ہیں کہ ’اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے ہمیں سماجی نفسیات پر ایک نظر ڈالنا ہو گی۔ جب کسی قوم میں جذباتی تفریق زیادہ ہو جاتی ہے تو جس گروپ سے کسی کا تعلق ہوتا ہے وہ اسی کو مقدم رکھتا ہے اور دوسروں سے ہمدردی رکھنے سے زیادہ اسی گروپ سے وفاداری کو ترجیح دیتا ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’سماجی شناخت کی تھیوری ہمیں بتاتی ہے کہ لوگ اکثر اپنی شناخت اور تعلق کو اپنی سیاسی طرف داری سے جوڑتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ وہ اس سیاسی گروپ سے باہر کے لوگوں سے زیادہ ہمدردی نہیں رکھتے۔‘

ڈاکٹر رافعیہ کہتی ہیں کہ ’عام طور پر خوف اور غصے جیسے جذبات بدلہ لینے پر اکساتے ہیں اور ہمدردانہ ردعمل دینے سے اجتناب برتنے پر مجبور کرتے ہیں۔ موجودہ ردعمل کا براہ راست تعلق پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے ہے۔ اگر اجتماعی سماجی نفسیات کے زاویے سے دیکھیں تو اس صورت حال کو سمجھنا آسان ہے۔
یہی سوال جب ماہرنفسیات ارم ارشاد بھٹی کے سامنے رکھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ ایسے رویے اجتماعی بے حسی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ جس میں جب لوگ محبت یا نفرت کے اظہار کے بجائے لاتعلق ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اس سے کیا جو ہو رہا ہے ہوتا رہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انفرادی طور پر بھی یہ رویہ دیکھنے میں ملتا ہے اور اب تو اجتماعی طور پر بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ میرا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ ان ساری چیزوں کی بڑی وجوہات پاکستان کی سیاسی صورت حال سے ہی پیدا ہو رہی ہیں۔‘