Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دیدار‘، انڈیا میں ملٹی سٹارر فلم کا پہلا رجحان ساز کامیاب تجربہ

فلم دیدار میں دلیپ کمار کی اداکاری کو بہتے ہوئے پانی سے تشبیہہ دی جاتی ہے(فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
دلیپ کمار کی اداکاری والی فلم ’آن‘ اگر پہلی رنگین فلم کہی جاتی ہے تو راج کپور کے ساتھ آنے والی فلم ’انداز‘ ان کی پہلی اینٹی ہیرو فلم ہے۔
لیکن اشوک کمار کے ساتھ آج سے کوئی 75 سال قبل بننے والی فلم ’دیدار‘ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ انڈیا میں ملٹی سٹار فلموں کے لیے رجحان ساز کا درجہ رکھتی ہے۔
انڈیا کے معروف ناول نگار وکرم سیٹھ اپنی شاہکار ناول ’اے سوٹیبل بوائے‘ میں اس فلم کا بار بار ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح لوگ اس فلم کو دیکھ کر سینما تھیئٹر میں پھوٹ پھوٹ کر روتے تھے اور یہ کہ یہ فلم اس قدر ہاؤس فل چل رہی تھی کہ ٹکٹ نہ ملنے پر لوگ فساد برپا کر رہے تھے۔
نتن بوس کی ہدایت کاری والی فلم ’دیدار‘ میں دلیپ کمار، اشوک کمار، نرگس، نمی، یعقوب اور موتی لال جیسے منجھے ہوئے اداکار ایک ساتھ نظر آتے ہیں۔ اس سے قبل ستاروں کا اتنا درخشاں جھرمٹ ایک ساتھ کسی فلم میں نظر نہیں آتا ہے۔
آج ہم اس کا تذکرہ اس لیے کر رہے ہیں کہ فلم دیدار 16 مارچ 1951 میں پہلی بار منظرعام پر آئی تھی۔
جہاں نتن بوس اس کے ڈائریکٹر ہیں وہیں بمل رائے اس کے ایڈیٹر ہیں، جو بعد میں انڈیا کے چوٹی فلم ساز اور ہدایت کار بنے اور دلیپ کمار کے ساتھ انہوں نے کئی جنموں پر مبنی فلم ’مدھومتی‘ بنائی۔
فلم دیدار میں نوشاد  کی موسیقی اور محمد رفیع کی آواز نے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔
فلم کریٹک دیپک مہان نے انڈین اخبار ’دی ہندو‘ میں لکھا ہے اپنے زمانے میں یہ فلم حیرت انگیز طور پر مؤثر ثابت ہوئی اور معروف انگریزی ناول نگار ’ڈیکنس کے ٹریڈ مارک غم  و الم کی بھاری خوراک کے باوجود یہ فلم آج بھی بہت سی چیزوں کے ساتھ دلیپ کمار کی ایک ناکام عاشق کی سہل انگیز مثالی اداکاری کے ساتھ محمد رفیع کے نغموں کی وجہ سے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کرتی ہے اور اس کے لیے تالیاں بجائی جاتی ہیں۔‘

فلم دیدار 16 مارچ 1951 میں پہلی بار منظرعام پر آئی تھی (فائل فوٹو: ڈِسکوگز)

انہوں نے لکھا ہے کہ ’درحقیقت رفیع کی گلوگیر اور محبت کی اوس سے بھیگتی آواز نے دلیپ کمار کی محبت بھری شخصیت کو بڑھایا ہے اور اس فلم کی موسیقی اس کی لازوال اپیل کی بنیاد ہے۔‘
کہا جاتا ہے کہ نتن بوس نے انڈیا میں پلے بیک سنگنگ کو متعارف کرایا اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ موسیقی نے ہمیشہ ان کی فلموں کی کہانی سنانے اور اس کو آگے بڑھانے میں مدد کی ہے۔
فلم دیدار میں دلیپ کمار کی اداکاری کو بہتے ہوئے پانی سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔
فلمی نقاد دیپک مہان لکھتے ہیں اگرچہ فلم ’گنگا جمنا‘ میں نتن بوس نے دلیپ کمار کے لیے ڈرامائی انٹریکشنز کی جگہ فراہم کی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے فلم ’دیدار‘ بغیر کسی تنازع کے دکھ بھری کہانی میں مزید دکھ کو یکجا کرتے ہوئے کلائمیکس دیا ہے۔
کسی طوفان برپا کرنے والے پلاٹ کے بغیر فلم کی کہانی سہل انداز میں بہتی چلی جاتی ہے۔
یہ فلم انڈین سینما کے سنہری دور کی ایک کامیاب فلم ٹھہری اور اس نے دلیپ کمار کی ’ٹریجڈی کنگ‘ والی شبیہہ کو مزید مستحکم کیا اور دوام بخشا۔

فلم دیدار میں بچپن کی محبت کو بھولنے کو بہت ہی سادہ انداز میں پیش کیا گیا ہے (فائل فوٹو: فلم فیئر)

’دو بدن‘ کی کہانی کے لیے ترغیب
یہ فلم جب دہائیوں بعد ممبئی کے تھیئٹرز میں دوبارہ ریلیز کی گئی تو دلیپ کمار کے مداح اور ان کے انداز کی نقل کے لیے جانے جانے والے اداکار منوج کمار اس فلم کو دیکھنے گئے اور انہوں نے ہدایت کار راج کھوسلہ کو اپنے ساتھ فلم دیکھنے کے لیے مدعو کیا۔
اس فلم کو دیکھنے کے بعد انہوں نے 1966 میں آنے والی فلم ’دو بدن‘ کا خاکہ تیار کیا اور یہ فلم بھی نہ صرف ہٹ ہوئی بلکہ اپنے زمانے کی یادگار فلموں میں شامل ہوئی۔
’دیدار‘ میں تقریباً درجن بھر گیت شامل ہیں جن میں ’بچپن کے دن بھلا نہ دینا۔۔۔‘، ’نصیب در پہ ترے۔۔۔‘، ’ہوئے ہم جن کے لیے برباد۔۔۔‘، ’میری کہانی بھولنے والے۔۔۔‘، ’دیکھ لیا میں نے قسمت کا تماشہ۔۔۔‘ جیسے گیت شامل ہیں۔
یہ تمام گیت آج بھی سنے اور پسند کیے جاتے ہیں۔ اس فلم میں بچپن کی محبت کو بھولنے کو بہت ہی سادہ انداز میں پیش کیا گیا ہے جس میں طبقاتی کشمکش تو ہے لیکن اسے بہت سہل انداز میں قبول کیا جاتا ہے۔

فلم دیدار دیکھنے کے بعد ہدایت کار راج کھوسلہ نے 1966 میں آنے والی فلم ’دو بدن‘ کا خاکہ تیار کیا (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

دلیپ کمار ایک امیر گھرانے میں کام کرنے والے ملازم کا لڑکا ہوتا ہے اور اس کا بچپن نرگس کے ساتھ گزرتا ہے لیکن پھر حالات کے ہاتھوں سب الگ ہو جاتے ہیں اور جہاں دلیپ کمار کو پناہ ملتی ہے وہ ایک غریب گھرانہ ہوتا ہے جس میں نمی اور یعقوب بھائی بہن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
دلیپ کمار نمی کی محبت کو نرگس کی محبت کے لیے نظر انداز کرتے رہتے ہیں لیکن بچن میں ہی ایک طوفان کی زد میں آ کر ان کی بینائی چلی جاتی ہے اور جوانی میں وہ حسرت دیدار لیے اپنے غم کو گیت میں پروتا نظر آتا ہے لیکن جب ڈاکٹر اشوک کمار کے ہاتھوں اس کی بینائی واپس آتی ہے اور وہ نرگس کو ڈاکٹر کے ساتھ خوش و خرم دیکھتا ہے تو پھر اپنی آنکھیں پھوڑ لیتا ہے اور نمی کے پاس واپس چلا جاتا ہے۔
غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی یہ فلم نہ صرف دلیپ کمار کے لیے سنگ میل ہے بلکہ یہ ملٹی سٹار فلموں کی کامیابی کا ایک کامیاب تجربہ ہے۔
یہ دلیپ کمار کے المیہ کردار کے کلائیمکس سے پہلے کی فلم کہی جا سکتی ہے۔ دراصل ان کا المیہ کردار جگنو (1947) سے شروع ہو کر ، میلہ (1948)، شہید (1948)، ندیا کے پار (1948)، انداز (1949)، جوگن (1950) اور دیدار (1951) تک پہنچتا ہے اور اڑن کھٹولہ (1955) اور دیوداس (1955) تک وہ اپنے کلائمیکس پر ہوتا ہے۔

 

شیئر: