Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بالی وڈ کی مارلن منرو مدھو بالا، جو ’دل کے معاملے‘ میں خوش قسمت ثابت نہیں ہوئیں

اداکارہ مدھوبالا 14 فروری 1933 کو دہلی میں پیدا ہوئیں (فوٹو: انڈین ایکسپریس)
ایک نوجوان، حیران و پریشان ایک حویلی میں ایک خوابیدہ، نقاب پوش حسینہ کی پرچھائیں دیکھتے ہوئے اس کا تعاقب کر رہا ہے۔ یہ منظر بالی وڈ کی پہلی ہارر فلم ’محل‘ کا ہے جو زبردست کامیاب رہی۔
اس فلم میں مدھوبالا نے مرکزی کردار کیا تھا جن کی عمر اُس وقت صرف 16 برس تھی مگر اس فلم کی کامیابی نے اُن کو راتوں رات سپرسٹار بنا دیا۔
اس فلم کی ریلیز کو قریباً  75 سال ہونے کو آئے ہیں مگر اس کا گیت ’آئے گا آنے والا‘ کی دھن آج بھی فلم بین فوراً پہچان لیتے ہیں۔
فلم میں مدھو بالا کا ادا کیا ہوا کردار اُن کی حقیقی زندگی کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ وہ محض 20 سال بعد ماورائی حسن مگر ایک المیے سے بھری زندگی گزار کر چل بسیں۔ اُن کا شاندار مگر مختصر فلمی کیریئر، ناکام محبت اور جان لیوا بیماری ان کی کسی بھی فلم سے زیادہ ڈرامائی ثابت ہوئے۔
ایک بار جب ان سے اپنی شخصیت کے بارے میں بیان کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’وہ اس قدر کم عمری میں فلمی دنیا کی بھول بھلیوں میں داخل ہوگئی تھیں کہ اِن میں سے کبھی نکل ہی نہیں سکیں۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’آپ جب خود کو بھول چکے ہوں تو دوسروں کو اپنے بارے میں کیا بتا سکتے ہیں؟‘
یہ کہانی بالی وڈ کی خوابیدہ آنکھوں، پری چہرہ اور مخملی حسن کی مالکہ اداکارہ مدھوبالا کی ہے جو 14 فروری 1933 کو دہلی میں پیدا ہوئیں۔
والد عطااللہ خان غیرمنقسم ہندوستان کے شہر پشاور کے یوسفزئی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو امپیریل ٹوبیکو کمپنی میں ملازمت کرتے تھے، ملازمت چھوٹی تو رکشا چلانے لگے مگر گھر کے معاشی حالات بہتر نہ ہو سکے تو تب مدھو بالا آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہو گئیں جہاں وہ لیجنڈ موسیقار خواجہ خورشید انور کی کمپوزیشنز گایا کرتی تھیں۔
اُس وقت اُن کی عمر ہی کیا تھی، صرف سات برس کی تو تھیں۔ رائے بہادر چنی لال بچی میں پنہاں صلاحیتوں کو پہچان گئے۔ وہ اُس وقت بمبئی ٹاکیز کے جنرل منیجر تھے تو یوں یہ خاندان بمبئی (اب ممبئی) منتقل ہو گیا۔
مدھو بالا کا حقیقی نام تو ممتاز جہاں بیگم دہلوی تھا مگر اُن کو مقبولیت مدھو بالا کے نام سے ملی جس کے معنی ہی ’حسین و دلکشن دوشیزہ‘ کے ہیں۔ اُن کو یہ نام بمبئی ٹالکیز کی مالکہ دیویکا رانی نے دیا تھا، یہ وہ دیویکا رانی ہی ہیں جنہوں نے پشاور کے یوسف خان کو دلیپ کمار کا نام دیا تھا۔

مدھو بالا کا حقیقی نام تو ممتاز جہاں بیگم دہلوی تھا مگر اُن کو مقبولیت مدھو بالا کے نام سے ملی (فوٹو: کوئی موئی)

یوں سال 1942 میں صرف 9 سال کی عمر میں مدھوبالا فلم ’بسنت‘ میں نظر آئیں جس کا انہیں 150 روپے معاوضہ ملا۔ یہ فلم تو سپرہٹ رہی اور چائلڈ ایکٹرس کے طور پر مدھوبالا کے کام کو بھی سراہا گیا مگر بات بن نہ سکی کیوں کہ اُس وقت سٹوڈیو کو چائلڈ ایکٹرز کی ضرورت نہیں تھی تو یہ کنٹریکٹ ختم ہو گیا اور یوں خاندان واپس دہلی آگیا۔
ایک دو برس بعد فلم ’جوار بھاٹا‘ کے لیے دیویکا رانی نے عطااللہ خان سے دوبارہ رابطہ کیا تاکہ مدھوبالا کو کاسٹ کیا جا سکے چناںچہ مدھوبالا کے والد نے بمبئی میں مستقل طور پر رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا اور وہ روز سٹوڈیوز کے چکر کاٹنے لگے۔ اُن کی یہ محنت رائیگاں نہیں گئی اور رنجیت سٹوڈیوز نے مدھوبالا کو تین سو روپے ماہانہ پر ملازمت دے دی۔
اس دور میں اداکارہ نے کئی فلموں میں بے بی ممتاز کے طور پر مختصر کردار ادا کیے مگر دوسری جانب ان کی زندگی کا المیہ رنگ بھی نمایاں ہونے لگا تھا۔
ہدایت کار سہراب مودی نے اداکارہ کو اگرچہ فلم ’دولت‘ کے لیے کاسٹ کیا مگر یہ فلم تاخیر کا شکار ہوگئی۔ ہدایت کار کیدار شرما اُن دنوں فلم ’نیل کمل‘ پر کام کر رہے تھے جس میں انہوں نے مدھو بالا کو راج کپور کے مدِمقابل کاسٹ کر لیا۔ یہ کردار بھی اُن کو اتفاقیہ طور پر اُس وقت ملا جب فلم کی مرکزی اداکارہ کملا چیٹرجی چل بسیں۔ یہ فلم سال 1947 میں ریلیز ہوئی۔ یہ فلم تو کامیاب رہی اور مدھوبالا کو شناخت بھی مل گئی مگر اُن کی معاشی مشکلات کا حل کسی طور پر نہیں نکل پا رہا تھا۔
دیویکا رانی نے ان دنوں ہی اداکارہ کو  مدھو بالا کا نام دیا جو غالباً اُن کو راس آگیا اور اُن کی فلم ’محل‘ کی کامیابی کے بعد اداکارہ کے لیے کامیابی کے دروازے کھل گئے۔ وہ اس فلم میں اشوک کمار کے ساتھ پہلی بار بڑے پردے پر نظر آئیں جس کے بعد انہوں نے کئی فلموں میں ایک ساتھ کام کیا۔
اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ لکھتا ہے کہ ’اس فلم میں انہوں نے اپنا پہلا مکمل گانا فلم بند کروایا، جس میں وہ لتا منگیشکر کے گائے ہوئے گیت ’آئے گا آنے والا‘ میں جھولا جھلاتی ہوئی نظر آئیں ۔ فلم کی ریلیز کے بعد یہ گانا ہر روز ریڈیو سیلون پر بجایا جانے لگا، اور فلمی صحافی بے اختیار اُن کی تعریف کرنے لگے۔‘

اداکارہ کی بہن مدھر بھوشن نے کہا تھا کہ ’آپا پہلی بار پریم ناتھ کی محبت میں ہی گرفتار ہوئیں۔‘ (فوٹو: پِن پیج)

اُن دنوں کے ایک مقبول فلمی جریدے ’فلم انڈیا‘ نے اداکارہ کے بارے میں لکھا کہ ’غیرمعمولی حسن اور پروقار کشش کی حامل ایک غیر معمولی شخصیت۔‘ فلمی صحافی بکرم سنگھ نے ان الفاظ میں تعریف کی، ’وہ کیمرہ جرم کا مرتکب ہو گا جو ان کے چہرے کو نہ سمو سکے۔‘  فلم ساز او پی دتا نے کہا کہ ’اُن کی مسکراہٹ گویا زندگی کا جشن تھی۔‘
اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘نے اپنے ایک مضمون میں اداکارہ کے حسن کو کچھ ان لفظوں میں بیان کیا ہے کہ ’کہا جاتا ہے کہ اُن کا رنگ اتنا گورا اور شفاف تھا کہ جب وہ پان کھاتیں تو آپ گلے سے سرخی نیچے جاتے دیکھ سکتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک بار پانی کے چشمے میں منظر فلم بند کروانے سے انکار کر دیا کیوں کہ ان کو گدلے پانی سے الرجی تھی، اور اگر ان کی جلد کو زیادہ زور سے دبایا جاتا تو وہ نیلی پڑ جاتی۔‘
اداکارہ نے فلم ’محل‘ کے بعد ’دُلاری‘، ’بے قصور‘ اور ’ہنستے آنسو‘ میں کام کیا۔ سال 1951 اُن کی ذاتی زندگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا جب اُن کی اداکار پریم ناتھ کے ساتھ فلم ’بادل‘ ریلیز ہوئی۔ یہ فلم تو باکس آفس پر کوئی خاص جادو نہیں جگا سکی مگر اُن کا ساتھی اداکار پریم ناتھ کے ساتھ افیئر ضرور خبروں میں رہا۔
اس بارے میں اداکارہ کی بہن مدھر بھوشن نے کہا تھا کہ ’آپا پہلی بار پریم ناتھ کی محبت میں ہی گرفتار ہوئیں۔ یہ تعلق چھ ماہ تک چلا مگر مختلف مذہب ہونے کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ انہوں نے آپا کو مذہب تبدیل کرنے کے لیے کہا مگر آپا نے انکار کر دیا۔‘
سال 1951 میں ہی اُس پریم کہانی نے جنم لیا جو سنیما کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی مگر اس کا انجام دردناک ہوا۔ اس سال اداکارہ کی دلیپ کمار کے ساتھ دو فلمیں ’ترانا‘ اور ’سنگ دل‘ ریلیز ہوئیں جس کے بعد ان دونوں کی آن سکرین اور آف سکرین جوڑی پر باتیں ہونے لگیں اور مدھو بالا کی اداکاری کی بھی تعریف ہوئی۔
’فلم انڈیا‘ کے لیے بابو راؤ پٹیل نے اپنے ریویو میں لکھا کہ ’مدھوبالا نے اس فلم میں اپنے فلمی کیریئر کی بہترین اداکاری کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے دلیپ کمار کی رفاقت میں بالآخر خود میں پنہاں اداکارانہ صلاحیتوں کا ادراک کر لیا ہے۔‘
سال 1954 میں مدراس میں فلم ’بہت دن ہوئے‘ کی شوٹنگ کے دوران مدھو بالا کو دل کی تکلیف ہوئی تو وہ بمبئی واپس آگئیں اور پہلی بار یہ تشخیص ہوئی کہ اُن کے دل میں سوراخ ہے جو اُس وقت ایک ناقابلِ علاج مرض تھا مگر وہ اپنی بیماری کے باوجود فلموں میں کام کرتی رہیں۔

مدھو بالا اور دلیپ کمار ’نیا دور‘ کے تنازع کے باوجود یادگار فلم ’مغلِ اعظم‘ میں ایک ساتھ نظر آئے (فوٹو: کوئی موئی)

اس دوران اداکارہ اور دلیپ کمار کی پریم کہانی کے بھی چرچے ہونے لگے تھے جسے بی آر چوپڑہ کی فلم ’نیا دور‘ سے ایک فیصلہ کن موڑ ملا۔ اس فلم کے لیے دلیپ کمار کے ساتھ مدھو بالا کو کاسٹ کیا گیا تھا جس کے لیے اداکاروں کو 40 دن تک بھوپال رہنا تھا۔
مدھو بالا کے والد نے ’طبی وجوہات‘ کو بنیاد بناتے ہوئے یہ عذر تراشا کہ مدھوبالا آؤٹ ڈور شوٹنگز کے لیے نہیں جا سکتیں مگر انہوں نے ایڈوانس میں لی ہوئی رقم واپس کرنے سے انکار کر دیا جس پر یہ معاملہ عدالت میں چلا تو دلیپ کمار نے بی آر چوپرہ کے حق میں گواہی دی جس پر غالباً مدھو بالا کے والد نالاں تھے یا وجہ کچھ اور تھی جو انہوں نے مدھوبالا اور دلیپ کمار کی شادی نہیں ہونے دی؟
اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق ’دلیپ کمار نے اس دعوے کو مسترد کیا تھا کہ مدھوبالا کے والد اس رشتے کے خلاف تھے۔ دلیپ کمار کے مطابق دراصل یہ عطا اللہ خان کی خواہش تھی کہ اس مجوزہ شادی کو ایک کاروباری معاہدے میں بدل دیا جائے جو اس رشتے کی راہ میں رکاوٹ بنا۔ اس وقت عطا اللہ خان اپنی فلم پروڈکشن کمپنی قائم کر چکے تھے اور چاہتے تھے کہ مدھوبالا اور دلیپ کمار دونوں ہی ان کے بینر تلے کام کریں، جو دلیپ کمار کے لیے ایک ناقابلِ قبول شرط تھی۔‘
مدھو بالا اور دلیپ کمار ’نیا دور‘ کے تنازع کے باوجود ہدایت کار کے آصف کی یادگار فلم ’مغلِ اعظم‘ میں ایک ساتھ نظر آئے مگر اس فلم کی شوٹنگ کے دوران ہی دونوں میں دوریاں اس قدر بڑھ گئیں جو واضح طور پر محسوس کی جانے لگیں۔
دلیپ کمار نے اس کا ذکر اپنی خودنوشت سوانح عمری میں بھی کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ ’مغل اعظم‘ کی شوٹنگ کے درمیان میں ہم دونوں کی بات چیت مکمل طور پر بند ہو چکی تھی۔‘
فلم فیئر میگزین میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اس کہانی کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ ’ستارا دیوی، جو اس وقت کے آصف کی بیوی تھیں، کے مطابق اس تلخ واقعے کے بعد مدھو بالا اور دلیپ کمار کے درمیان محبت کے مناظر اپنی شدت کھو بیٹھے۔ پہلے ان کے رومانوی مناظر حقیقت پر مبنی ہوتے تھے اور آصف کیمرہ بند ہونے کے بعد بھی انہیں جاری رکھنے دیتے تھے۔ لیکن فلم کے دوسرے نصف میں دونوں کے درمیان دبے ہوئے تناؤ کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔‘

1960 میں مدھوبالا اور کشور کمار ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے (فوٹو: ہندوستان ٹائمز)

’مجھے اب بھی انارکلی کے (دیوار میں) چنوائے جانے والے منظر کی شوٹنگ یاد ہے۔ جب بھی دلیپ اس کی آنکھوں میں دیکھتے، مدھوبالا آہستہ سے اسے کوستیں: تمہاری مراد کبھی پوری نہیں ہوگی۔ وہ پھر روتے ہوئے کہتیں، میں اسے کبھی نہیں بھول سکتی۔ اللہ اسے کبھی معاف نہیں کرے گا۔‘ ’یہ منظر اس قدر بے جان تھا کہ آخرکار اسے فلم سے نکال دیا گیا۔‘
دلیپ کمار کے نزدیک تو یہ عطااللہ خان تھے جن کی وجہ سے یہ رشتہ ٹوٹا جو اسے ایک کاروباری معاہدے میں بدلنا چاہ رہے تھے مگر اداکارہ کی بہن مدھر بھوشن نے ان دونوں کے درمیان فون پر ہونے والی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’انہوں (دلیپ کمار) نے کہا کہ اپنے باپ کو چھوڑ دو اور میں تم سے شادی کر لوں گا۔‘ مدھوبالا نے جواب دیا کہ ’میں تم سے شادی کر لوں گی لیکن صرف ایک بار گھر آجاؤ، معافی مانگ لو اور اُن کو گلے لگا لو۔ یہ ضد تھی جو اُن کے پیار کو لے ڈوبی۔ لیکن میرے والد نے کبھی اُن کو اپنا تعلق توڑنے یا حتیٰ کہ اُن سے معافی مانگنے کا نہیں کہا تھا۔‘
مصنفہ خدیجہ اکبر، جنہوں نے اداکارہ پر کتاب ’میں جینا چاہتی ہوں: مدھو بالا کی کہانی‘ تحریر کی، لکھتی ہیں کہ ’دیویکا رانی نے اُن کو بتایا کہ اُن (مدھو بالا) کے غیرمعمولی طور پر پرجوش والد نے اُن کی زندگی تباہ کردی۔‘
سال 1960 میں ’مغل اعظم‘ کی ریلیز تو ہوئی مگر اُس وقت تک مدھوبالا اور دلیپ کمار کے راستے جدا ہو چکے تھے۔ اس دوران مدھوبالا اور کشور کمار ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے جنہوں نے فلموں ’ڈھاکے کی ململ‘، ’محلوں کے خواب‘ اور ‘چلتی کا نام گاڑی‘ میں ایک ساتھ کام کیا تھا اور یوں ان دونوں نے شادی کر لی۔
کہا جاتا ہے کہ کشور کمار کی زندہ دل طبیعت کی وجہ سے مدھوبالا کے زخم مندمل ہوئے۔ وہ اُن کے چہرے پر مسکان لانے میں کامیاب ہو جاتے۔ یہ نہیں ہے کہ اس شادی پر مدھوبالا کے والد آسانی سے رضامند ہو گئے تھے مگر وہ اس بار کچھ کر نہیں پائے۔
ہوا یہ کہ شادی کے بعد مدھو بالا اور کشور کمار ہنی مون منانے کے لیے لندن روانہ ہو گئے جہاں اداکارہ کی طبیعت شدید ناساز ہو گئی اور اُس وقت اُن دونوں پر معاملے کی سنگینی واضح ہوئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اُن (مدھوبالا) کے پاس دو سال ہی بچے ہیں۔ اُن کے دل میں سوراخ کا مطلب یہ تھا کہ اُن کا جسم زیادہ خون پیدا کرتا جو ان کے ناک اور منہ سے بہتا۔ ہنی مون سے واپسی کے بعد ان دونوں کے لیے زندگی معمول پر نہیں آ سکی اور اداکارہ نے اپنا زیادہ وقت اپنے والد کے گھر پر گزارا۔
مدھر بھوشن نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کشور اُن کو یہ کہتے ہوئے گھر چھوڑ گئے کہ ’میں ان کا خیال نہیں رکھ سکتا کیوں کہ میں عموماً گھر سے باہر رہتا ہوں‘ لیکن وہ اُن کے ساتھ رہنا چاہتی تھیں۔ وہ مہینے دو مہینے بعد چکر لگا لیے کرتے۔ ممکن ہے کہ وہ دوری بڑھا رہے ہوں تاکہ جدا ہوتے ہوئے تکلیف نہ ہو۔ مگر انہوں نے کبھی اُن (مدھوبالا) پر تشدد نہیں کیا جیسا کہ کہا گیا۔ وہ ان کے علاج پر آنے والے اخراجات برداشت کرتے رہے۔ وہ دونوں نو سال تک شادی کے بندھن میں بندھے رہے۔‘

بالی وڈ کی مارلن منرو کا خطاب پانے والی اس بے مثل اداکارہ کی صحت ’مغل اعظم‘ کے بعد تیزی سے بگڑتی گئی (فوٹو: ٹائمز آف انڈیا)

مدھو بالا کی زندگی اور پریم کہانیوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ حال ہی میں معروف مصنف اور صحافی موہن دیپ کی اداکارہ پر لکھی ہوئی سوانح عمری شائع ہوئی ہے جس میں اداکارہ کو منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
’آؤٹ لک‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اس کتاب سے لیے گئے ایک اقتباس کے مطابق ’وہ ایک بے قرار عورت تھیں۔ زندگی کے آخری لمحوں تک اپنے عدم تحفظات کے سایوں میں زندگی گزارتی رہیں۔ وہ مردوں سے محبت میں گرفتار ہوتیں اور انہیں کھو دیتی تھیں۔ لطیف، موہن سنہا، کمال امروہی، پریم ناتھ، ذوالفقار علی بھٹو، دلیپ کمار، پردیپ کمار، بھرت بھوشن، کشور کمار…‘
اس کتاب پر بہت زیادہ تنقید ہوئی اور اداکارہ کے اپنے خاندان کی جانب سے ان الزامات کو دو ٹوک الفاظ میں رَد کر دیا گیا۔
اس میں شبہ نہیں کہ مدھوبالا کا ماورائی حسن ان کے ساتھی اداکاروں کو اُن کی جانب متوجہ کرتا تھا اور وہ اُن کے حسن کے سحر میں کھو جاتے تھے جس کا اظہار اداکار شمی کپور نے بھی ایک انٹرویو میں کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’میری جب پہلی بار فلم ‘ریل کا ڈبہ‘ کے سیٹ پر اُن سے ملاقات ہوئی تو میرے لیے اُن کے چہرے سے نظریں ہٹانا مشکل ہو گیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے مجھ پر بجلی گر گئی ہو۔‘
اپنی المیہ زیست کی وجہ سے بالی وڈ کی مارلن منرو کا خطاب پانے والی اس بے مثل اداکارہ نے اگرچہ ’مغل اعظم‘ کے بعد کچھ مزید کامیاب فلموں میں کام کیا مگر ان کی صحت تیزی سے بگڑتی رہی اور انہوں نے اپنی زندگی کے آخری برس فلمی دنیا کی چکاچوند سے دور اپنے گھر پر گزارے۔ اُن کی بہن مدھو بھوشن کے مطابق، مدھوبالا کہا کرتی تھیں کہ ’میں جینا چاہتی ہوں۔ خدارا مجھے جینے دو۔‘
یہ بے مثل ادارہ آج ہی کے روز 23 فروری 1969 کو اپنی 36 ویں سالگرہ کے نو روز بعد چل بسیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دل کے معاملے میں مدھو بالا خوش قسمت نہیں رہیں اور دل کی بیماری ہی اُن کی بے وقت موت کی وجہ بن گئی۔

 

شیئر: