آپ نے کہانیوں میں سنا اور پڑھا ہوگا کہ کسی زمانے میں ایک بادشاہ ہوتا تھا جس کی رعایا خوش تھی، کسی کو چوری ڈاکے کا خوف نہ تھا۔ یہاں تک کہ ایک بڑھیا بھی رات میں سونے کے سکے اچھالتی، ایک شہر سے دوسرے شہر چلی جاتی لیکن کوئی نہ پوچھتا کہ ’بوڑھی اماں، منہ میں کتنے دانت ہیں؟‘
یہاں کوئی کہانی مطلوب نہیں ہے بلکہ انڈیا میں ایک ایسا گاؤں ہے جہاں چوری چکاری کی بات تو کیا لوگ گھروں میں تالا لگانے کا بھی نہیں سوچتے، کیونکہ وہاں تو گھروں میں دروازے ہی نہیں ہیں۔ یہ صرف رہائشی گھروں کی بات نہیں بلکہ دکانوں میں بھی دروازے نہیں، حتیٰ کہ پولیس سٹیشن بھی بغیر دروازوں کے ہیں۔
یہ گاؤں شنی شنگناپور ہے جو انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے ضلع احمد نگر میں واقع ہے اور جہاں روزانہ ہزاروں زائرین اپنے دیوتا کے ساتھ اظہار عقیدت کے لیے پہنچتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
گوا کا ’دوپٹہ کلر‘ جس کے ہاتھ 16 خواتین کے خون سے رنگے ہیںNode ID: 870706
زائرین کی آمد وہاں کوئی 300 برس سے بتائی جاتی ہے لیکن 10 برس قبل سنہ 2015 میں یہ گاؤں اس وقت اچانک خبروں میں آیا جب وہاں کے معروف شنی مندر کے اندرونی حصے میں ایک خاتون داخل ہوتی ہیں اور بھگوان شنی کا ابھیشیک (پوجا) کرتی ہیں۔
صدیوں سے انڈیا کے بہت سے مندروں کے اہم ترین حصوں میں خواتین کا داخلہ ممنوع ہے، لیکن مرد و زن میں برابری کی جدوجہد میں اگرچہ کئی خواتین نے ان مقدس مقامات پر قدم رکھے ہیں لیکن اب بھی خواتین از خود وہاں جانے سے پرہیز کرتی ہیں۔
بہرحال اس گاؤں کے مندر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی 300 برس پہلے موسلا دھار بارش اور سیلاب کے نتیجے میں دریائے پنس نالا کے کنارے پتھر کی ایک بھاری سیاہ سل پڑی ملی تھی۔ یہ دریا پہلے اس گاؤں سے ہو کر بہتا تھا۔ جب مقامی لوگوں نے چھڑی سے اس تقریباً ڈیڑھ میٹر پتھر کی سل کو چھوا تو اس میں سے خون بہنے لگا اور گاؤں میں خوف و ہراس پھیل گيا۔
انڈین میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پھر اس رات گاؤں کے مکھیا (سربراہ) نے خواب میں شنی دیوتا کو دیکھا جس نے کہا کہ یہ سل (سلیب) ان کا اپنا مجسمہ ہے۔ دیوتا نے مکھیا کو حکم دیا کہ اس سل کو گاؤں میں بلند مقام پر نصب کیا جائے تاکہ اب کے بعد سے اس کا وہیں قیام ہو گا۔
روایت کے مطابق اس نے یہ شرط بھی رکھی کہ سل کو کھلے میں رکھا جائے اور اس کے گرد رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے تاکہ وہ اس گاؤں کی حفاظت کرتے رہیں۔

مکھیا نے نہ صرف اس سل کو ایک اونچے سے چبوترے پر نصب کیا بلکہ گاؤں والوں نے اس کے بعد سے اپنے گھروں کے دروازے بھی ہٹا دیے کیونکہ انہیں یہ یقین ہو چلا تھا کہ اب ان کے گھروں کی حفاظت ان کے دیوتا کر رہے ہیں۔
ہندی اخبار دینک جاگرن کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں لوگ اپنی گاڑیوں میں بھی تالے نہیں لگاتے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہاں کے لوگ اپنے قیمتی اثاثے کیسے رکھتے ہیں؟
یہ گاؤں بہت کم آبادی والا گاؤں ہے۔ یہاں رہنے والے لوگ اپنے گھروں میں کوئی الماری یا سوٹ کیس بھی نہیں رکھتے۔ لوگ سونے کے زیورات جیسی قیمتی چیزوں کو کپڑے میں ڈھانپ کر یا ڈبے میں رکھتے ہیں۔
گھر کا مرکزی دروازہ 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ کیونکہ یہاں گھروں میں داخل ہونے کے لیے دروازہ ہے اور چوکھٹ بھی ہے، لیکن اس میں کواڑ یا پٹ اور پلڑے نہیں ہیں۔ پھر بھی جانوروں کو گھروں میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے لوگ لکڑی کے پھاٹک یا باڑ لگاتے ہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ یہاں موجود بینکوں میں بھی دروازے نہیں ہیں، جس کی وجہ سے یہ گاؤں اور بھی انوکھا ہے۔ ایسے میں یہ ایک ایسا گاؤں بن جاتا ہے جہاں بغیر دروازے کے بینک ہیں۔
روایت کی پاسداری کرتے ہوئے نئی تعمیرات میں بھی دروازے نہیں لگائے جا رہے ہیں۔ اس گاؤں میں پہلی بار ایک پولیس سٹیشن سنہ 2015 میں قائم کیا گیا لیکن گاؤں والوں کی جانب سے ابھی تک پولیس سٹیشن میں ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔ اور پولیس سٹیشن پر بھی کوئی دروازہ نہیں ہے۔

اسی طرح سنہ 2011 میں یونائیٹڈ کمرشل بینک نے شنی شنگنا پور میں اپنی برانچ کھولی تو اسے ہندوستان کی پہلی ’لاک لیس‘ برانچ کہا گيا۔ تاہم گاؤں والوں کے عقائد کا خیال کرتے ہوئے شفافیت کے جذبے سے شیشے کے داخلی دروازے پر بمشکل نظر آنے والا ریموٹ کنٹرول برقی مقناطیسی تالا لگا ہوا ہے۔
مقامی روایت کے مطابق یہاں متعدد اوقات میں میلے ٹھیلے لگتے ہیں اور بڑے میلوں کے دوران بھی لوگ اپنے گھر کُھلے رکھتے ہیں اور کوئی چوری نہیں ہوتی۔
اسی طرح کا ایک گاؤں راجستھان کے بھیلواڑا ضلعے میں بھی ہے جہاں گھروں میں دروازے نہیں ہیں۔
نوبھارت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 100 خاندانوں کے اس گاؤں میں کسی بھی گھر کے باہر کوئی دروازہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہاں کبھی چوری یا ڈکیتی کی کوئی واردات نہیں ہوئی۔ گاؤں والوں کا ماننا ہے کہ دروازہ نہ ہونے سے ان کے گاؤں میں خوشی، سکون اور خوشحالی آتی ہے۔ چوری کی کبھی کوئی واردات نہیں ہوئی۔
گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ ایک ہندو سنت مہاتما کے آشیرباد سے کبھی چوری نہیں ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق سارن کا کھیڑا گاؤں کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے آباؤ اجداد نے انہیں بتایا کہ تقریباً 300 برس قبل ایک سنت بھگوان داس گاؤں میں آئے تھے، جہاں انہوں نے قریبی اولی ندی کے کنارے واقع شیو مندر میں تپسیا کی تھی۔ اس کے بعد جب وہ واپس جانے لگے تو انہوں نے لوگوں کو یہ آشیرباد دیا کہ وہ اپنے گھر کے دروازے پر کبھی کواڑ نہ لگائیں۔ اس سے آپ کے گاؤں میں خوشی، خوشحالی اور امن قائم رہے گا اور چوری کی کوئی واردات نہیں ہوگی۔ تب سے لوگ اپنے گھروں کے مرکزی دروازے پر پٹ نہیں لگاتے۔