Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوا کا ’دوپٹہ کلر‘ جس کے ہاتھ 16 خواتین کے خون سے رنگے ہیں

پولیس نے یوگیتا نائک کے قتل میں مہانند نائک کو گرفتار کیا تو اس اپنے جرائم قبول کیے۔ (فوٹو: انڈین ایکسپریس)
15 جنوری 2009 کو جب انڈیا کی ساحلی ریاست گوا کے دارالحکومت پنجی کے مضافات میں کاجو کے ایک باغ سے ایک نوجوان لڑکی کی لاش برآمد ہوئی تو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ یہ لاش پولیس کو اس آدمی تک لے جائے گی جس نے اس سے قبل کم از کم 15 خواتین کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
جب اس نے اسی برس مئی میں گرفتاری کے بعد اپنے جرائم قبول کیے تو اس کی بیوی نے کہا کہ ’انہیں کبھی اس کے رویے سے اس پر کسی قسم کا شک نہیں ہوا کہ وہ کچھ غلط کر سکتا ہے کیونکہ وہ ایک اچھا شوہر اور ایک اچھا باپ تھا۔‘
بہرحال وہ شخص قتل کرتا رہا اور بچتا رہا لیکن پھر ایک پولیس افسر کی تفتیش نے اسے کیفر کردار تک پہنچا دیا۔
اس نے 1994 سے لے کر 2009 تک یعنی کوئی 15 سال کے درمیان 16 قتل کیے۔ اس کے قتل کا ایک پیٹرن تھا جس میں وہ غریب طبقے کی نوجوان خواتین سے پہلے دوستی کرتا، اس سے شادی کا وعدہ کرتا، ریپ کرتا اور پھر اسے موت کی آغوش میں بھیج دیتا تھا۔ ایک قتل کو چھوڑ کر اس نے باقی تمام قتل مقتول کے دوپٹے سے ہی کیے اور اسی لیے میڈیا میں اسے ’دوپٹہ کلر‘ کے نام سے پکارا گیا۔

’دوپٹہ کلر‘ کون تھا؟

جب پولیس نے یوگیتا نائک کے قتل میں مہانند نائک کو گرفتار کیا تو اس اپنے جرائم قبول کیے کیونکہ اس کے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ اسی دوران سنہ 1995 سے غائب ایک 19 سالہ لڑکی کے اہل خانہ نے بھی مہانند نائک پر اپنی بچی درشنا نائک کے قتل کا الزام لگایا، اور کہا کہ اس نے ان کی بیٹی کو شادی کا جھانسہ دے کر قتل کر ڈالا ہے۔
مئی 2009 میں مہانند نے یہ قبول کیا کہ اس نے اس لڑکی کو اسی کے دوپٹے سے گلا گھونٹ کر مارا ڈالا جبکہ سب سے پہلے سنہ 1994 میں اس نے گلابی نامی 30 سالہ خاتون کو قتل کیا تھا۔
دی انڈین ایکسپریس نے 2023 میں شائع اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’وہ یوگیتا کے لیے ’یوگیش‘ تھا۔ گلابی کے نزدیک وہ ’گووند‘ تھا۔ وہ اپنے شکار کے نام کے حساب سے اپنا فرضی نام اور شناخت ظاہر کرتا تھا تاکہ ان کے درمیان ایک قسم کا رابطہ اور تعلق پیدا ہوتا ہوا نظر آئے۔‘
’مہانند نائک اپنے متاثرین سے معاشقہ کرتا، انہیں شادی کی پیشکش کرتا، اور پھر دوپٹے سے ان کا گلا گھونٹ دیتا اور ان کے زیورات لوٹ لیتا تھا۔‘
یہ 1994 کی بات ہے جب مہانند نائک کی عمر کوئی 25 سال تھی اور وہ پتلا دبلا نوجوان تھا جس کی داڑھی تھی۔
وہ گوا کی راجدھانی پنجی سے تقریباً 40 کلومیٹر جنوب میں شیرودا میں آٹو رکشا چلاتا تھا۔ وہ جہاں رہتا تھا اس کے سامنے والے گھر میں درشنا نائک نام کی ایک 21 سالہ لڑکی رہتی تھی۔
انڈین میڈیا کے مطابق 30 ستمبر 1994 کو درشنا کی لاش بمبولم میں کاجو کے درخت سے لٹکی ہوئی ملی۔ وہ اپنے ہی دوپٹے سے لٹکی ہوئی پائی گئی۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے درشنا کی 75 سالہ والدہ کہتی ہیں کہ ’جب ہم دھان کے کھیتوں میں کام کرتے تھے تو وہ گھر میں اکیلی رہتی تھی۔ درشنا کا خاندان غریب تھا اس لیے اس کی موت کی تفتیش نہ ہو سکی بلکہ یوں کہیں کہ پولیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔‘

14 جنوری 2009 کو یوگیتا کے قتل کے بعد مہانند کی پوری حقیقت سامنے آ گئی۔ (فائل فوٹو: ٹائمز آف انڈیا)

لیکن اس سے قبل اس نے جو پہلا قتل کیا تھا اس معاملے میں وہ بال بال بچ گیا۔ درشنا کی موت سے صرف دو ماہ قبل اس نے 30 سالہ گلابی گاونکر کو قتل کیا تھا۔
گلابی گاونکر مہانند کا پہلا شکار تھی۔ اس کی لاش پنجی سے 28 کلومیٹر جنوب مشرق میں کھانڈے پار میں ملی۔
گلابی پونڈ بازار میں آٹو رکشا سٹینڈ کے قریب درزی کا کام کرتی تھی۔ مہانند بھی اس جگہ آٹو چلاتا تھا۔ قتل کے ایک دن بعد جب گلابی کی لاش ملی تو ایک گواہ نے پولیس کو بتایا کہ ایک داڑھی والا روزانہ گلابی سے ملنے آتا تھا۔ پولیس نے مہانند کو اپنی تحویل میں لے لیا لیکن دوسرے آٹو ڈرائیوروں نے پولیس کو بیان دیا کہ گلابی کے قتل کے دن وہ پورا وقت آٹو سٹینڈ پر تھا اس لیے پولیس نے اسے چھوڑ دیا۔
دی ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں مہانند کی چالاکی کا ذکر کیا گيا ہے اور لکھا گیا ہے کہ وہ خواتین کے سامنے خود کو تاجر ظاہر کرتا اور انہیں اپنے پیسے اور اپنے انداز سے متاثر کرتا تھا۔
ایک رپورٹ کے مطابق وہ بہت دھیمی آواز میں بولتا تھا اور اپنا تعارف عورتوں سے ملتے جلتے نام کے ساتھ کراتا تھا جیسے گلابی کے لیے گووند اور یوگیتا کے لیے یوگیش۔
مہانند جب بھی کسی بھی عورت سے ملتا تو اسے کہتا کہ ’تم میرے باپ کی پسند ہو۔‘ وہ اپنی شکار ہر عورت سے میل جول کے بعد ایک شرط رکھتا تھا کہ جب تک شادی طے نہیں ہو جاتی اور ان کی بہن اور خالہ اسے پسند نہیں کر لیتیں تب تک وہ کسی کو اس رشتے کے بارے میں کچھ نہیں بتائے گی۔
وہ انہیں اپنی بہن اور خالہ سے ملانے کے بہانے ان کے بہترین زیورات کے ساتھ بلاتا۔ پہلی ملاقات میں وہ عورت کو آئس کریم کھلاتا اور رومانس کا اظہار کرتا، اور اسے اپنے گھر والوں سے ملنے کی دعوت دیتا۔ جو بھی اس کے ساتھ جانے پر راضی ہو جاتی وہ پہلے ان کو ہر طرح سے لوٹتا اور پھر قتل کر دیتا۔

قاتل کیسے پکڑا گیا؟

بہرحال 14 جنوری 2009 کو یوگیتا کے قتل کے بعد مہانند کی پوری حقیقت سامنے آ گئی۔ یوگیتا کے اہل خانہ نے پونڈا پولیس سٹیشن کے انچارج چیتن پاٹل سے رابطہ کیا اور معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
انسپکٹر چیتن جو کہ نئے نئے آئے تھے، انہوں نے اس کیس میں دلچسپی لی اور یوگیتا کے کال ریکارڈ سے تفتیش شروع کی۔ اس کی آخری دو کالیں گوا انجینیئرنگ کالج کے ایک طالب علم کے سم کارڈ سے کی گئی تھیں جس کا فون گم ہو گیا تھا۔
چیتن نے پھر گم شدہ سم کی کال کی تفصیلات چیک کیں اور پتہ چلا کہ نمبر اب بھی چل رہا ہے اور اس سے کسی 23 سالہ خاتون کو اکثر کال کی جاتی ہے۔ پولیس نے خاتون سے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ فون کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ مہانند ہے۔ مہانند کو اپریل 2009 میں گرفتار کیا گیا اور پھر ایک ایک کر کے تمام قتل کے راز سامنے آتے گئے۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس نے سب سے پہلے 30 سالہ گلابی گاؤنکر کا سر پتھر سے کچل کر 30 اگست 1994 کو مار ڈالا۔ پھر 30 ستمبر 1994 کو 21 سالہ درشنا نائک کو اس کے دوپٹے سے ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد اس نے 19 سالہ وسنتی گوڈے اور 31 سالہ سنیتا گاونکر کو ان ہی کے دوپٹے سے ہلاک کر دیا۔

عدالت نے سنہ 2011 میں مہانند نائک کو دو خواتین کے قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی۔ (فائل فوٹو: سکرین گریب)

اس کے بعد مہانند نے 28 سالہ انجنی گاونکر کو ہلاک کیا جس کی لاش 25 مئی 2009 کو اس کے اقبال جرم کے بعد ملی۔ 30 دسمبر 2005 کو اس نے شکنتلا نامی خاتون کو ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد سورت گاونکر، دیپالی جوتکر، بھاگو اپاسکر، نرملا گھاڑی، کیسر نائک، سوشیلا، نرملا امولکر، نین گاونکر اور یوگیتا نائک نامی خواتین کو ہلاک کیا جن میں سے کسی کی بھی عمر 33 سال سے زیادہ نہیں تھی۔
اگرچہ اس نے سارے گناہ نہیں قبول کیے لیکن مرنے والوں کے حالات کے تحت مہانند کو ان تمام خواتین کا قاتل قرار دیا گیا۔ بہرحال عدالت نے سنہ 2011 میں اسے دو خواتین کے قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی۔
جب عوام کو مہانند نائک کی حقیقت کا پتہ چلا تو ایک بھیڑ نے اس کے گھر کو نذرِآتش کر دیا۔ ان کی اہلیہ جو مرکزی حکومت میں ملازمت کرتی تھیں، انہیں ان کی بچی کے ساتھ نام معلوم مقام پر بھیج دیا گيا۔
تاہم گذشتہ برس جب اگست میں اسے جیل سے ایک مہینے کی پرول پر چھٹی ملی تو وہ پھر سے میڈیا کی زینت بنا، اور درشنا کی 75 سالہ والدہ نے کہا کہ ایسے شخص کو کبھی بھی جیل سے رخصت نہیں ملنی چاہیے۔

شیئر: