Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین سکھ پروفیسر کی لاہور میں ملاقات، جس نے 1947 کی بے مثال کہانی کھول دی

0 seconds of 8 minutes, 1 secondVolume 90%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
08:01
08:01
 
سنہ 1947 کے ہنگاموں نے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، ایسے ہی سنگین حالات میں انسانیت کی بے مثال کہانیاں بھی رقم ہوئیں۔
انڈین شہری ڈاکٹر ترنجیت سنگھ بٹھالیہ جو آج کل امریکہ کی اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی میں سول انجینیئرنگ کے پروفیسر ہیں، اپنی جڑوں کی تلاش میں 2019 میں پاکستان آئے۔
 اُن کے خاندان کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے اور ان کے بزرگ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں جنرل تھے۔ وہ کئی بار پاکستان آئے لیکن اس بار انہوں نے ایک انوکھے اتفاق کا سامنا کیا۔
لاہور میں ایچی سن کالج کے ایک عشائیے میں جب ڈاکٹر ترنجیت سنگھ نے 1947 کے ہنگاموں کے دوران اپنے سکھ خاندان کو مسلمان خاندان کی جانب سے پناہ دینے کی داستان سنائی تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ اسی وقت خاندان کے ایک فرد، احمد ورک بھی ان کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کی تاریخ میں 1947 کا سال ایک ایسا باب ہے جس نے دونوں ممالک کے لاکھوں لوگوں کے دلوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب لوگ اپنے پیاروں سے بچھڑ رہے تھے، گھر چھوٹ رہے تھے اور نفرت کا طوفان ہر سمت برپا تھا۔
ڈاکٹر ترنجیت سنگھ کی زبان پر جب بھی 1947 کا ذکر آتا ہے تو ایک گہرا سکوت چھا جاتا ہے۔ وہ جب بھی پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ان کے لہجے میں گویا گوجرانوالہ کی گلیاں، لاہور کی تاریخی عمارتیں اور ایچی سن کالج کی دیواریں بولنے لگتی ہیں۔
دسمبر 2019 میں وہ جب پہلی بار پاکستان کی سر زمین پر اترے تو ہوائی اڈے سے ہوٹل جاتے ہوئے راستے میں ایچی سن کالج کی عمارت نے انہیں اچانک اپنی طرف متوجہ کر لیا۔
ڈاکٹر ترنجیت سنگھ نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرے خاندان کی تین نسلیں ایچی سن کالج میں پڑھی ہیں۔ دادا نواب آف بہاولپور کے روم میٹ تھے، والد یہاں کے سٹوڈنٹ رہ چکے ہیں۔ ائیرپورٹ سے ہوٹل کی طرف آتے ہوئے پہلی بار جب میں نے ایچی سن کالج دیکھا تو میری آنکھیں نم ہو گئیں۔‘
ان کا یہ جذباتی اور تاریخی تعلق ہی تھا جو انہیں بار بار پاکستان کھینچ لایا۔ یہاں تک کہ جب ایک روز ایچیسن کالج کے عشائیے میں انہیں مدعو کیا گیا تو انہوں نے اپنے خاندان کی ساری کہانی حاضرین کو سنائی اور پھر ان کی احمد ورک سے ملاقات ہوئی۔ 
ایچی سن کالج میں ڈاکٹر ترنجیت سنگھ کو ان کی خاندانی یادوں کو دُہرانے کے لیے عشائیے پر مدعو کیا گیا تھا۔ اسی محفل میں احمد ورک خاموشی سے انہیں سن رہے تھے۔

1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت ہنگامے ہوئے تھے جن میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں (فوٹو: اے پی)

ڈاکٹر ترنجیت سنگھ جب اپنی دادی کے لرزتے لہجے میں آمنہ بی بی کا ذکر کرنے لگے کہ انہوں نے تقسیم کے ہنگاموں میں نہ صرف ایک سکھ خاندان کو پناہ دی بلکہ دو ماہ تک ان کے دو ماہ کے بچے کو راتوں کو گود میں کھلاتی بھی رہیں تو احمد کے چہرے پر حیرت اور فخر کے جذبات نمودار ہونے لگے۔
یہ آمنہ بی بی ان کی پردادی تھیں اور یہ کہانی ان کے خاندان کی وراثت کا ایک گمشدہ باب تھا جو اچانک زندہ ہو گیا تھا۔
ڈاکٹر ترنجیت بتاتے ہیں کہ ’مجھے علم تھا کہ احمد ورک یہاں پڑھتے ہیں لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ اس وقت اس محفل میں مجھے سن رہے ہیں۔ جب میں نے سٹیج سے ان کا نام لیا تو ہال میں موجود سب کی نظریں ان کی طرف اُٹھ گئیں۔ یہ ناقابلِ یقین لمحہ تھا۔‘
انہوں نے اپنی تقریر کے دوران ہی احمد ورک کو سٹیج پر بلایا اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ ہال میں موجود تمام سامعین تالیاں بجا کر اس منظر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
احمد ورک کے پردادا احمد بشیر ورک تقسیم کے وقت لاہور میں ایک سرکاری عہدے پر تعینات تھے جہاں اُنہیں ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں میں سکھوں کی جانب سے چھوڑے گئے مکانات الاٹ کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔
اس حوالے سے احمد ورک بتاتے ہیں کہ ’اُن کا دفتر بھی ایک ایسے ہی خالی مکان میں قائم کیا گیا تھا جس کا ایک حصہ غیر استعمال شدہ تھا۔ اُن دنوں میرے دادا اور اُن کے بہن بھائی چھوٹے تھے۔ اُنہیں گھر کے اُس دوسرے حصے میں جانے سے منع کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ وہاں رشتے دار رہتے ہیں۔ میرے دادا کے بڑے بھائی کو شاید اُس سکھ خاندان کے بارے میں علم تھا جو اُس مکان میں پناہ گزیں تھا۔‘
ان کے مطابق 'ڈاکٹر صاحب کی کہانی سن کر لگا جیسے تاریخ نے ہمیں ایک دوسرے سے ایک بار پھر متعارف کروا دیا ہو۔‘
ایچی سن کالج میں عشائیے کے موقع پر ڈاکٹر ترنجیت سنگھ نے 1947 میں ایک مسلمان گھرانے کی جانب سے سکھ گھرانے کو پناہ دینے کی کہانیاں سنائیں۔ یہ وہ کہانیاں تھیں جو انہیں ان کی دادی نے سنائی تھیں۔ 

ڈاکٹر ترنجیت سنگھ نے 1947 کی کہانی سنائی تو ان کو پناہ دینے والے مسلمان خاندان کا نوجوان بھی اتفاق سے ہال میں موجود تھا (فوٹو: ڈاکٹر ترنجیت سنگھ)

ڈاکٹر ترنجیت سنگھ بتاتے ہیں کہ ’اس وقت ان کے دو چچا تھے جن کی عمریں بالترتیب 2 ماہ اور دو سال تھی۔ ان کے بقول ’میری دادی نے بتایا کہ جب رات کو دو ماہ کا بچہ جاگتا تھا تو ان کے میزبان کی بیوی آمنہ بی بی یعنی جنہوں نے ان کو پناہ دی تھی، جاگ کر اس کا خیال رکھتی تھیں تاکہ میری دادی آرام کر سکیں۔ یہ وہ وقت تھا جب انسانیت نے مذہب اور قومیت کی سرحدوں کو پار کر کے ایک دوسرے کی حفاظت کی تھی۔‘
ان کے مطابق ان کے دادا، دادی اور ان کے دو بچے گوجرانوالہ کے ایک گاؤں سے لاہور آئے تھے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’میری دادی بتاتی ہیں کہ ایک دن جب میرے دادا کے دوست جمعہ کے دن مسجد گئے تو مولوی صاحب نے پوچھا مجھے پتا لگا ہے کہ آپ کے ہاں مہمان آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہاں میرا بھائی اور ان کی فیملی ہے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ آپ قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلف لیں اور بتائیں کہ یہ آپ کے بھائی ہیں۔ انہوں نے حلف لے کر بتایا کہ یہ ان کے بھائی ہیں۔ انہوں نے میرے دادا دادی کو دو مہینے اپنے ساتھ رکھا، انہوں نے بھائی سمجھا تھا تو حلف لیا۔ یہ دنیا اسی لیے چل رہی ہے کہ یہاں اچھائی برائی سے زیادہ ہے۔‘
دوسری طرف جب احمد ورک اور ڈاکٹر ترنجیت ملے تو اس وقت تک احمد ورک اس کہانی سے متعلق بہت کچھ نہیں جانتے تھے۔ احمد ورک بتاتے ہیں کہ ’دادا جان بچپن سے ہی مجھے یہ واقعات سناتے رہے ہیں لیکن ڈاکٹر ترنجیت سے ملنے تک میں اِس کہانی کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میرے پردادا نے 40 دیگر سکھ خاندانوں کو بھی پناہ دی تھی اور دادا جان نے اِس حوالے سے زیادہ تجربات خود دیکھے تھے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ان کے دادا نے ان کے پردادا کی زبانی کئی کہانیاں بتائیں جن میں سے یہ بھی ایک کہانی تھی جس کی تکمیل ڈاکٹر ترنجیت سے ملنے کے بعد ہوئی جب مجھے اس حوالے سے مکمل کہانی معلوم ہوئی تو میں اس پر فخر کرنے لگا۔‘
ان کے مطابق ’میں نے جب ڈاکٹر ترنجیت سے ملاقات کی تو اپنی ذات اور خاندان پر فخر محسوس کیا۔ یہ احساس ہوا کہ میرے اپنے خاندانی ورثے سے تعلق رکھنے والے کسی فرد نے اتنا قابلِ احترام کام کیا ہے۔‘

 ڈاکٹر ترنجیت سنگھ بٹھالیہ کے خاندان کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا (فوٹو: فیس بک، گوجرانوالہ)

ڈاکٹر ترنجیت سنگھ بارہا پاکستان آتے جاتے رہے ہیں۔ ان کے بقول ’ہمارے ہاں سرحد کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ گھر کے بیچ جو دیوار ہوتی ہے تو ہم یہ نہیں سوچتے کہ دیوار کے پار لوگ دشمن ہیں۔ ہم نے یہ جو لائن بنائی ہے اس کو ہم نے دوستی کی لائن بنانا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے دلوں میں لکیریں کھینچ لی ہیں ورنہ ہماری محبت سچی ہے۔‘
وہ پاکستان میں اپنے آبائی گھر اور دیگر حوالوں کو ڈھونڈنے کے لیے لاہور سمیت گوجرانوالہ میں گھومتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان اور انڈیا کے لوگوں میں محبت بھی بانٹتے ہیں۔
وہ اپنے ایک دوست کی بات بتاتے ہوئے کہتے ہیں ’مجھے ایک دوست نے بتایا کہ آپ نے نفرت کے بازار میں محبت کی دکان لگائی ہے۔ دیکھیں، میرا کام یہ ہے کہ بارڈر وہیں رہے، ہماری تاریخ ایک ہے۔ ہم ایک لوگ ہیں ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے۔‘
وہ 1947 میں اپنے خاندان کو پناہ دینے والے مسلمان گھرانے سے متعلق آخری بات کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ’لوگ کہتے ہیں فرشتے آسمان پر ہوتے ہیں، نہیں۔ فرشتے زمین پر ہوتے ہیں۔ ورک فیملی ہمارے لیے فرشتے سے کم نہیں۔ وہ نہ ہوتے تو میں اپنی دادی اور فیملی سے مل ہی نہ سکتا۔‘
ان کے مطابق 1947 میں کئی لوگوں کو مارا گیا لیکن ’اس تشدد کے دور میں کچھ ایسی کہانیاں بھی ہیں جہاں لوگوں نے دوسروں کو بچایا، ہمیں ایسی کہانیاں بھی دنیا کو بتانی چاہییں۔‘

 

شیئر: