Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جعفرایکسپریس حملہ: خودکش حملہ آوروں کی لاشیں مظاہرین زبردستی ہسپتال سے لے گئے

جان اچکزئی نے کہا کہ ریاست کو بلوچ یکجہتی کمیٹی پر پابندی لگانی چاہیے جو دہشتگردوں کا سیاسی محاذ ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان میں جعفر ایکسپریس ٹرین اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث چھ خودکش حملہ آوروں کی لاشیں ان کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین زبردستی ہسپتال سے نکال کر لے گئے۔
پولیس نے شہر کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر ان میں سے کچھ لاشیں واپس اپنے قبضے میں لے لیں۔
بلوچستان کے ضلع کچھی میں گیارہ مارچ کو جعفر ایکسپریس ٹرین پر خودکش حملے میں ملوث پانچ حملہ آوروں اور تین مارچ کو قلات میں فرنٹیئر کور کے ونگ کمانڈر کی گاڑی پر خودکش حملہ کرنے والی خاتون خودکش حملہ آور کی لاش سول ہسپتال کوئٹہ لائی گئی تھیں۔
لاشیں گذشتہ کئی دنوں سے سول ہسپتال کے مردہ خانے میں پڑی تھیں۔ سول ہسپتال کوئٹہ کی پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے تصدیق کی کہ مشتعل مظاہرین ہسپتال کے مردہ خانے کے تالے اور دروازے توڑ کر وہاں پڑی چھ لاشوں کو ساتھ لے گئے۔ تاہم انہوں نے مزید تفصیل نہیں بتائیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق مظاہرین اپنے ساتھ لاشیں لے کر ہسپتال سے باہر لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس دوران پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش بھی کی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ نے الزام لگایا کہ پولیس نے لاشیں لے جانےوالے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا  جس میں دو خواتین زخمی ہوگئیں جبکہ پولیس نے دو خواتین سمیت کئی مظاہرین کو گرفتار بھی کرلیا۔
بیبرگ بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور لاپتہ افراد کے لواحقین گزشتہ دو دنوں سے ہسپتال میں احتجاج کر رہے تھے اور لاشیں دیکھنے کی اجازت طلب کر رہے تھے لیکن انہیں ان تک رسائی نہیں دی جا رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال انتظامیہ اور پولیس کوئی تعاون نہیں کررہی تھی جس پر بدھ کی شام کو مظاہرین کی بڑی تعداد ہسپتال میں جمع ہوگئی اور انہوں نے خود ہی لاشوں کو نکال لیا۔
خودکش حملہ آوروں کی لاشیں ہسپتال سے غائب ہونے کے بعد پولیس کی دوڑیں لگ گئیں اور پولیس نے شہر میں لاشوں کی تلاش کے لیے مختلف علاقوں میں چھاپے مارے۔
بیبرگ بلوچ کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے سیکریٹریٹ چوک اور سریاب روڈ سمیت مختلف علاقوں میں مظاہرین سے بیشتر لاشیں واپس لے لیں۔
اس حوالے سے پولیس کے مؤقف کو جاننے کے لیے اردو نیوز نے پولیس ترجمان، ایس ایس پی سمیت دیگر افسران سے رابطے کی کوششیں کیں مگر ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
اس دوران مشتعل مظاہرین میں سے کچھ کوئٹہ کے کاسی قبرستان کی طرف بھی گئے جہاں گذشتہ روز متعدد افراد کو خفیہ طور پر دفنانے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
اس سے قبل بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بدھ کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس میں لاشوں کی شناخت اور حوالگی کی اجازت نہ دینے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں کارروائیوں کے دوران مسلح افراد کے مارنے کی اطلاع غلط ثابت ہوئی اور آپریشنز کے نام پر لاپتہ افراد کی لاشیں پھینکی گئیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ کاسی قبرستان میں تیرہ افراد کو بغیر شناخت اور کسی قانونی کارروائی کے خفیہ طور پر دفنایا گیا، جس پر لاپتہ افراد کے لواحقین کو تشویش ہے۔ یہ انتقامی رویہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان لاشوں کو نکال کر ان کی شناخت کریں گے۔
دوسری جانب بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان جان اچکزئی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر بیان میں لکھا کہ 'ماہ رنگ بلوچ بی ایل اے کے دہشتگردوں کی لاشیں لینے ہسپتال پہنچ گئی ہیں اور وہ کہہ رہی ہیں کہ پاکستان ایک غیر مہذب ریاست ہے اس لیے وہ دہشتگردوں کی لاشیں واپس نہیں کررہی۔‘
جان اچکزئی نے کہا کہ ’دہشتگردوں نے ٹرین ہائی جیک کی اور معصوم لوگوں کو مارا کیا یہ ایک مہذب عمل تھا؟‘
جان اچکزئی نے کہا کہ ریاست کو بلوچ یکجہتی کمیٹی پر پابندی لگانی چاہیے جو دہشتگردوں کا سیاسی محاذ ہے۔

 

شیئر: