Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان کی سکیورٹی صورتحال: حکومت کا لیویز فورس ’پولیس میں ضم کرنے کا فیصلہ‘

حکومتی ذرائع کے مطابق ضم کرنے کا فیصلہ اعلٰی عسکری اور سول قیادت کے مابین متعدد اجلاسوں کے بعد کیا گیا۔ (فوٹو: بلوچستان لیویز)
بلوچستان حکومت نے ڈیڑھ صدی پرانی لیویز فورس کو صوبائی پولیس میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو صوبے میں 82 فیصد علاقے میں امن وامان کی ذمہ دار ہے۔
 وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ’لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔‘
حکومتی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ اعلٰی عسکری اور سول قیادت کے مابین متعدد اجلاسوں کے بعد کیا گیا ہے، جس کا مقصد سول فورسز کی استعداد بڑھا کر عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں ان کے کردار کو مضبوط بنانا ہے۔
لیویز فورس 2010 میں منظور کیے گئے ایک قانون کے تحت کام کر رہی ہے، جس کی منسوخی اور انضمام کے لیے صوبائی کابینہ سے منظوری اور اسمبلی سے قانون سازی کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں حکومت کو نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکومت کے اپنے ارکان کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
 حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری طور پر لیویز کے انضمام کے لیے اب تک کوئی کارروائی شروع نہیں ہوئی، تاہم  آئندہ  آنے والے دنوں میں اس سلسلے میں حکمت عملی ترتیب دی جائے گی۔
اس سے پہلے 2003 میں فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور میں بھی لیویز فورس کو پولیس میں ضم کیا گیا تھا لیکن 2010 میں نواب اسلم رئیسانی کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اسے دوبارہ بحال کر دیا تھا۔
لیویز اور پولیس کے دوبارہ انضمام کی باتیں کئی مہینوں سے چل رہی تھیں۔ بلوچستان حکومت کے ایک سینیئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردونیوز کو بتایا کہ ’نومبر 2024 میں کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد وزیراعظم میاں شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر کے دورہ کوئٹہ کے دوران ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں لیویز اور پولیس کے انضمام پر بحث ہوئی تھی۔‘
عہدیدار کے مطابق ’بحث میں وزیراعلٰی بلوچستان اور حکومتی نمائندوں نے لیویز کے انضمام کی مخالفت کی تھی۔ تاہم جعفر ایکسپریس ٹرین ہائی جیکنگ واقعے کے بعد جب اعلٰی وفاقی سول اور عسکری قیادت نے کوئٹہ کا دورہ کیا تو اجلاس میں عسکری حکام نے ایک بار پھر صوبے میں پولیسنگ کے دوہرے نظام اور لیویز کی کارکردگی پر اعتراض اٹھایا اور لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے پر زور دیا۔‘

لیویز دیہی علاقوں میں امن وامان  برقرار رکھنے کے لیے ذمہ دار ہے۔ (فوٹو: بلوچستان لیویز)

حکومتی عہدیدار نے مزید بتایا کہ ’حکومت نے لیویز کو یکدم پولیس میں ضم کرنے کے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے اسے مرحلہ وار کرنے پر زور دیا اور پہلے مرحلے میں رواں سال صوبے کے مزید پانچ اضلاع میں پولیس کے اختیار میں دینے کی تجویز دی، لیکن حالات نے ایسا رخ اختیار کر لیا، کہ لیویز فورس کو اصلاحات کے ساتھ جدید شکل دے کر برقرار رکھنے کے حامی وزیراعلٰی سرفراز بگٹی کو بالآخر ہار ماننا پڑی۔‘
وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے چار روز قبل اسلام آباد میں ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں بھی لیویز اور پولیس کے انضمام کا عندیہ دیا تھا۔
وزیراعلٰی سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’یہاں ہماری سکیورٹی فورسز پاکستان کی فوج اور ایف سی وہاں، ہم اپنی سی ٹی ڈی اور پولیس کو مضبوط کرنے جا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ جو اے اور ایریاز کی تقسیم ہے، اس کو ختم کرنے جارہے ہیں۔ لیویز کو ری ویمپ کرنے جا رہے ہیں۔‘
بلوچستان میں پوللیسنگ نظام دو حصوں میں تقسیم
یاد رہے کہ بلوچستان میں پولیسنگ کا نظام انتظامی طور پر دو حصوں  ’اے ‘اور ’بی ‘ایریاز میں تقسیم ہے۔  پولیس شہری علاقوں میں کام کرتی ہے۔ جنہیں انتظامی طور پر ’اے ایریا  ‘کہا جاتا ہے جبکہ لیویز دیہی علاقوں میں امن وامان  برقرار رکھنے کے لیے ذمہ دار ہے۔ ان کے زیر انتظام علاقوں کو ’بی ایریا ‘کہا جاتا ہے۔
لیویز فورس 26 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ہے اور اس کے پاس رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کا تقریباً 82 فیصد جبکہ پولیس کے پاس صوبے کا صرف 18 فیصد علاقہ ہے۔ ماضی میں پولیس کے پاس صرف پانچ فیصد علاقہ تھا۔
سیاسی جماعتوں اور عوامی حمایت کے باوجود عسکری حلقے لیویز فورس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار  کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں میں امن وامان سے متعلق ہونےوالے اعلٰی سطح کے اجلاسوں میں فوجی افسران نے اس بات پر تنقید کی کہ عسکریت پسندی کے خلاف جاری جنگ میں صوبے کی سول فورسز خاص کر لیویز فورس لاتعلق بنی ہوئی ہے اور یہ عسکریت پسندوں کے سامنے مزاحمت نہیں کرتی۔ وہ حالیہ مہینوں میں ایسے واقعات کا حوالہ دیتے ہیں جب  لیویز کے درجنوں اہلکاروں نے بغیر فائر کیے اپنا سرکاری اسلحہ اور گاڑیاں عسکریت پسندوں کے حوالے کر دیں۔
اس کے جواب میں حکومتی اعلٰی عہدیداران سمیت لیویز کے حامیوں کا مؤقف تھا کہ  پولیس کا ردعمل بھی اسی طرح کا رہا ہے اور حالیہ دنوں میں پولیس اہلکاروں نے بھی کئی بار عسکریت پسندوں کے سامنے ہتھیار ڈالے ہیں۔

وزیراعلٰی سرفراز بگٹی نے لیویز کو اصلاحات کے ذریعے جدید شکل دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ (فوٹو: اے پی پی)

جنوری میں خضدار کے علاقے زہری میں لیویز تھانے پر حملے کے دوران عسکریت پسندوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور ’بزدلی‘ کا مظاہرہ کرنے پر لیویز کے 15 اہلکاروں کو برطرف کر دیا گیا تھا۔
اسلحہ چھیننے کے مسلسل واقعات کے بعد 15 مارچ کو ڈائریکٹر جنرل لیویز کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک سرکلر میں لیویز اہلکاروں کو خبردار کیا گیا ہے کہ ’دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور بزدلی کا مظاہرہ کرنے والوں کو فوری برطرف کیا جائے گا، اور ان کی کوئی اپیل قبول نہیں کی جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کی افرادی قوت میں اضافہ ہوا ہے وہ اسلحہ کی کمی پورا کرنے کے لیے لیویز اور پولیس کے ان مقامی اہلکاروں اور تھانوں پر بھی حملے کرکے ان سے اسلحہ، گاڑیاں  اور دیگر وسائل چھین رہے ہیں جنہیں پہلے وہ کم ہی ہدف پر رکھتے تھے۔
پولیس اور لیویز تھانوں، چوکیوں اور ناکوں پر گزشتہ  چند ماہ میں درجنوں ایسے حملے ہوچکے ہیں، جس میں دونوں سول فورسز کے اہلکار عسکریت پسندوں کے سامنے بے بس دکھائی دیے۔
ذرائع کے مطابق پولیس اور لیویز کے اس رد عمل اور اس سے حکومتی رٹ کی کمزوری کے تاثر کو تقویت ملنے پر عسکری قیادت کی جانب سے سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا اور حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ  صوبے میں پولیسنگ کے دوہرے نظام کو ختم کرکے سول فورسز کو عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں  ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز کے شانہ بشانہ لڑنے کے قابل بنائیں۔
بلوچستان حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ  لیویز فورس کے انضمام کا اقدام سول فورسز کی استعداد بڑھانے کی ان کوششوں کا حصہ ہوگا جس کا اشارہ وزیراعلٰی بلوچستان نے اپنے حالیہ بیانات میں دیا ہے۔
وزیراعلٰی نے پریس کانفرنس کے دوران اپنی گفتگو میں اس پہلو کا ذکر کیا تھا اور کہا کہ ’حکومت ایک نیا گورننس ماڈل متعارف کرا رہی ہے، جو اس تاثر کو ختم کرے گا کہ یہ صرف فوج اور دہشت گردوں کی لڑائی ہے‘۔
انہوں نے واضح کیا کہ ’یہ جنگ درحقیقت ریاستِ پاکستان کی ہے، اور اس میں حکومت بلوچستان کا بھی کلیدی کردار ہوگا۔
انہوں نے واضح کیا تھا کہ ’حکومت نہ صرف نان کائنٹک معاملات میں قیادت کرے گی جبکہ بلکہ کائنٹک عسکری کارروائیوں میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔‘

جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد سکیورٹی سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وزیراعظم کے لیویز فورس کی استعداد پر سوالات
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بھی دورہ کوئٹہ کے موقع پر امن وامان سے متعلق اجلاس جس میں آرمی چیف، گورنر، وزیراعلٰی بلوچستان اور دیگر اہم شخصیات  شریک تھے، سے خطاب کرتے ہوئے لیویز فورس کی استعداد پر سوالات اٹھائے تھے۔
انہوں نے دہشت گردی کے واقعات سے پاکستان کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کو درپیش خطرات  کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’اب دیکھیں لیویز پر 80 ارب روپے سال کا خرچ ہوتا ہے۔ ان کے پاس نہ ٹریننگ اور نہ اسلحہ ہے۔ ان کے پاس باقی آلات اور انٹیلی جنس کتنی ہے، تو یہ 80 ارب روپے کیا ان کو گولڈن ہینڈ شیک ملتا ہے؟
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ 80 ارب روپے اگر جدید آلات، اسلحہ، ٹولز اور آئی ٹی میں لگائیں اور نئی فورس کھڑی کریں تو میں سمجھتا ہوں نقشہ بدل جائے گا۔ پورے ملک کا سب سے بڑا صوبہ اتنا بڑا رقبہ اور 33 ہزار لیویز جس کے پاس سازو سامان ہی نہیں۔‘
بلوچستان حکومت کے ذرائع کے مطابق صرف لیویز ہی نہیں بلکہ بلوچستان پولیس کے ذیلی ادارے بلوچستان کانسٹیبلری کے مستقبل پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
فروری میں  سامنےآن والے ایک سرکاری مراسلے میں انکشاف ہوا تھا کہ حکومت بلوچستان کانسٹیبلری (جو صوبائی ریزرو پولیس کے طور پر آئی جی پولیس کے ماتحت کام کرتی ہے) کو فرنٹیئر کور میں ضم کرنے کے منصوبے پر غور کر رہی ہے۔  تاہم اس پر قانونی اور آئینی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں،  کہ ایک صوبائی فورس کیسے وفاقی پیرا ملٹری فورس میں ضم ہو سکتی ہے۔
لیویز فورس کو 1860 کی دہائی میں انگریزوں نے قبائلی بنیادوں پر قائم کیا تھا،تاکہ سرداروں کی حمایت اور وفاداری حاصل کرکے اس کے ذریعے اپنے نوآبادیاتی تسلط کو مستحکم کرسکیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی لیویز فورس مختلف شکلوں میں برقرار رہی۔
لیویز پہلے پولیس سے الگ قوانین کے تحت کام کرتی تھی، جس کے تحت جرم کی صورت میں مقدمہ اور تفتیش کااختیار لیویز کے پاس نہیں تھا اور جرم کی صورت میں تفتیش اور سزا کا اختیار قبائلی سرداروں (جرگہ ممبران ) کو حاصل ہوتا تھا، جس کی حتمی منظوری ڈپٹی کمشنر اور کمشنر دیتے تھے۔ بعد میں عدالت نے یہ امتیازی قانون ختم کردیا تھا۔ اس کے بعد سے پولیس اور لیویز ایک ہی طرز کے قوانین کے تحت کام کرتی ہیں۔

حالیہ دنوں میں بلوچستان میں یکے بعد دیگر دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’سرداروں کی نجی فورس‘
ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر پرویز مشرف تک ماضی کے کئی حکمران لیویز فورس کے شدید مخالف رہے، اور اسے سرداروں کی نجی فورس کہتے رہے ہیں۔ تاہم اس کے حامی بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں پولیس کے مقابلے میں لیویز کو زیادہ مؤثر، کم خرچ  اور مقامیت سے جڑی فورس سمجھتے ہیں، اور افادیت کے لیے  لیویز علاقوں میں جرائم کی کم شرح کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
بلوچستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں لیویز نظام کے خاتمے یا اس کے پولیس میں انضمام کی مخالف ہیں۔ جنوری 2025 میں صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن نے لیویز کی انضمام کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک قرارداد پیش کرکے مطالبہ کیا تھا کہ ’لیویز کو جدید وسائل اور تربیت دے کر مضبوط کیا جائے۔
وزیراعلٰی سرفراز بگٹی نے تب اسمبلی میں اپوزیشن کے خدشات کے جواب میں واضح کیا تھا کہ لیویز فورس کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ انہوں نے لیویز کو اصلاحات کے ذریعے جدید شکل دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’لیویز کو بیک قلم جنبش ختم کرنے اور بحال کرنا دونوں فیصلے غلط تھے۔ تاہم اب لگتا ہے کہ وزیراعلٰی بلوچستان اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں، اور انہوں نے لیویز کے مستقبل کے بارے میں سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

بلوچستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں لیویز نظام کے خاتمے یا اس کے پولیس میں انضمام کی مخالف ہیں۔ (فوٹو: لیویز فورس)

بلوچستان حکومت نے حالیہ برسوں میں لیویز میں کافی اصلاحات کی ہیں۔  چار ہزار سے زائد اہلکاروں کو فوج، ایف سی  اور اے ٹی ایف سے انسداد دہشت گردی کی تربیت اور جدید اسلحہ دینے کے علاوہ  پہلی بار انسداد دہشت گردی اور انٹیلی جنس ونگ جیسے نئے شعبے بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل لیویز فور س عبدالغفار مگسی کے مطابق ’ہم لیویز فورس کی استعداد بڑھا کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مؤثر بنانے اور دیگر سکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
لیکن ان تمام اصلاحات کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان حکومت  صوبے میں بڑھتی ہوئی شورش اور سکیورٹی چیلنجز میں اضافے کے باعث  لیویز کے ’طاقتور‘ ناقدین کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی ہے۔

 

شیئر: