ایران کے صدر نے کہا ہے کہ جوہری پروگرام آگے بڑھانے کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خط کے جواب میں تہران امریکہ سے براہ راست مذاکرات نہیں کرے گا۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ٹرمپ کے خط کے جواب میں ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کا بیان ایران کا پہلا سرکاری ردعمل ہے۔ یہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ’اگرچہ جواب میں بلا واسطہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا گیا ہے، لیکن بل واسطہ مذاکرات کے راستے کو کھلا رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
ایران جوہری پروگرام پر تعاون کرے: آئی اے ای اےNode ID: 486526
-
ایران جوہری پروگرام کے حوالے سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرے: روسNode ID: 540396
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی صدر بل واسطہ مذاکرات کو قبول کریں گے۔
2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کی نیوکلیئر ڈیل سے علیحدہ ہونے کے بعد بل واسطہ مذاکرات ناکام رہے ہیں۔
ٹرمپ کا یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور امریکہ دونوں نے متنبہ کیا ہے کہ وہ ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے، جس کے نتیجے میں فوجی تصادم کا خدشہ ہے، کیونکہ تہران جوہری ہتھیار بنانے کی سطح پر یورینیم کی افزودگی کرتا ہے۔ جیسا جوہری طاقت رکھنے والے ممالک نے کیا تھا۔
ایران طویل عرصے سے کہہ رہا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، لیکن امریکی پابندیوں اور غزہ میں جنگ کی وجہ سے اس کے حکام نے ایٹم بم بنانے کی دھمکی بھی دی ہے۔
ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس واپس آنے کے بعد سے ان کی انتظامیہ نے مسلسل کہا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنا چاہیے۔ تاہم فروری میں اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایران قریب قریب ہتھیاروں کے درجے کے یورینیم کی پیداوار میں تیزی لایا ہے۔