امریکہ کی یونیورسٹی میں غزہ جنگ کے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والے فلسطینی طالب علم کو امیگریشن آفس سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق محسن مہدوی کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کو پیر کے روز ورمونٹ کے امیگریشن آفس سے گرفتار کیا گیا، جہاں وہ امریکی شہریت کو حتمی شکل دینے کے حوالے سے انٹرویو دینے کے لیے پہنچے تھے۔
وکیل کے مطابق محسن مہدوی امریکہ کے قانونی اور مستقل رہائشی ہیں اور 2015 سے گرین کارڈ رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
’مزاحمت چھوڑ دو‘، فلسطینی کارکن محمود خلیل کی گرفتاری کیسے ہوئی؟Node ID: 887199
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ ان کا کلائنٹ کہاں ہے۔ انہوں نے فیڈرل کورٹ میں درخواست بھی جمع کرائی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے وہ حکومت کو محسن مہدوی کو ملک یا ریاست سے نکالنے سے منع کرے۔
وکیل لیونا ڈروبی نے ایک ای میل کے ذریعے بتایا کہ ’ٹرمپ انتظامیہ نے محسن مہدوی کو فلسطینی ہونے اور فلسطینیوں کے لیے آواز اٹھانے کی بنا پر گرفتار کیا ہے۔ اقدام کا مقصد ان لوگوں کو چپ کرانا ہے جو غزہ میں ہونے والے مظالم پر بات کرتے ہیں جو ایک غیرآئینی اقدام ہے۔‘
عدالت میں جمع کرائی گئی معلومات کے مطابق محسن مہدوی مغربی کنارے کے مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے اور وہ 2014 میں امریکہ پہنچے۔ انہوں نے حال ہی میں کولمبیا کی یونیورسٹی میں اپنا کورس ورک مکمل کیا ہے اور مئی میں گریجوایٹ ہو جائیں گے، جس کے بعد ماسٹر ڈگری کی تعلیم شروع کریں گے۔
پٹیشن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ ایک پکے بدھ مت کو ماننے والے ہیں جو ’عدم تشدد اور ہمدردی کو اپنے مذہب کا مرکزی اصول‘ سمجھتے ہیں۔
ایک طالب علم کے طور پر مہدوی غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم کے کھلے ناقد رہے اور انہوں نے مارچ 2024 میں کیمپس میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا تھا۔

وہ کولمبیا میں فلسطینی سٹوڈنٹ یونین کے شریک بانی بھی ہیں جو انہوں نے ایک اور فلسطینی محمود خلیل کے ساتھ مل کر بنائی تھی ان کو بھی حال ہی میں گرفتار کیا گیا تھا۔
جمعے کو لوزانیا کے امیگریشن جج نے فیصلہ سنایا تھا کہ محمود خلیل کو قومی سلامتی کے لیے خطرے کے طور پر ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے۔
محمود خلیل پہلے شخص تھے جو صدر ٹرمپ کے ان احکامات کے تحت گرفتار ہوئے، جن میں کیمپس میں غزہ جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کو پکڑنے کا کہا گیا تھا۔
محسن مہدوی کے دوست کرسٹوفر ہلالی اس وقت امیگریشن آفس کے باہر موجود تھے جب انہیں حراست میں لیا گیا اور اس موقع کی ویڈیو بنائی۔
سوشل میڈیا پر ڈالی جانے والی اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ محسن اپنے ہاتھوں سے امن کا نشان بنا رہے ہیں اور ان کو گاڑی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔
کرسٹوفر کا کہنا ہے کہ محسن مہدوی پرامن طور پر احتجاج کرنے والے شخص ہیں جنہوں نے اپنے وطن فلسطین میں بات چیت کے فروغ کے لیے کام کیا۔