امریکہ میں امیگریشن جج نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم اور فلسطینی کارکن محمود خلیل کو ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے فاکس نیوز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اسسٹنٹ چیف امیگریشن جج جیمی کومنز نے کہا ہے کہ حکومت نے اُن تقاضوں کو پورا کر لیا ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کے پاس محمود خلیل کو ملک بدر کرنے کی ٹھوس وجوہات ہیں۔
مزید پڑھیں
-
’مزاحمت چھوڑ دو‘، فلسطینی کارکن محمود خلیل کی گرفتاری کیسے ہوئی؟Node ID: 887199
امریکن سول لبرٹیز یونین نے ایک بیان میں کہا کہ ایک امیگریشن جج نے آج کی سماعت کے فوراً بعد فیصلہ دیا کہ محمود خلیل کو امریکی امیگریشن قانون کے تحت ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
عدالت کو لکھے گئے خط میں، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اصرار کیا تھا کہ محمود خلیل کے ایکٹیو ازم سے واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تاہم، انہوں نے باضابطہ طور پر اس حوالے سے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ الجزائر میں پیدا ہونے والے فلسطینی طالب علم حماس سے منسلک ہیں۔
خط میں مبینہ طور پر ’یہود مخالف مظاہروں اور خلل ڈالنے والی سرگرمیوں میں محمود خلیل کی شرکت اور کردار کا حوالہ دیا گیا ہے جو امریکہ میں یہودی طلباء کے لیے ناسازگار ماحول کو فروغ دیتے ہیں۔ خط میں کسی مبینہ جرم کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کو ایک ماہ قبل نیویارک میں امیگریشن کے اہلکاروں نے 1,200 میل دور دیہی علاقے لوزیانا کے حراستی مرکز میں منتقل کر دیا تھا۔

امریکہ میں امیگریشن جج جیمی کومنز نے جینا، لوزیانا میں لاسل امیگریشن کورٹ میں سماعت کے دوران کہا کہ ’اگر وہ ملک بدر کرنے کے قابل نہیں ہے تو میں جمعے کو اس کیس کو ختم کر دوں گا۔‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس نے 1952 کے ایک قانون کے تحت محمود خلیل کی ملک بدری کا حکم دیا ہے۔ یہ قانون وزیر خارجہ کو کسی بھی ایسے شخص کی مستقل رہائش منسوخ کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس کے بارے میں وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ امریکی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
امریکی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلسطین کے حامی محمود خلیل کو ملک سے اس لیے بھی بےدخل کر دینا چاہیے کیونکہ انہوں نے اپنی ویزا درخواست میں اس بات کو چُھپایا کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی فلسطینی امدادی ایجنسی کے لیے کام کیا۔
انہوں نے اپنی درخواست میں یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ بیروت میں برطانوی سفارت خانے میں شام کے دفتر کے لیے کام کرتے تھے اور وہ کولمبیا یونیورسٹی اپتھائیڈ ڈائیوسٹ گروپ کے رُکن تھے۔