صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) تیسری بار برسراقتدار آئی ہے۔ سنہ 2013 سے واضح برتری کی بنیاد پر حکومت میں ہونے کی وجہ سے اب صوبے میں پی ٹی آئی غیرمعمولی سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہے، مگر آٹھ فروری کے الیکشن میں کامیابی کے بعد موجودہ حکومت کی کارکردگی پر پارٹی کے اندر بھی سوالات اُٹھنے لگے ہیں۔
تین بار حکومت میں رہنے کے باوجود صوبے کے دارالحکومت پشاور کی حالت نہیں بدل سکی اور نہ ہی کوئی بڑا منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس کے باعث پی ٹی آئی پشاور کے رہنماؤں نے صوبائی حکومت سے اپنی ناراضی کا کھُل کر اظہار کیا ہے۔
گذشتہ دنوں پشاور کے سینیئر ورکروں اور عوامی نمائندوں کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعلٰی کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے اور احتجاج ریکارڈ کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
مزید پڑھیں
پی ٹی آئی پشاور ڈسٹرکٹ کے صدر عرفان سلیم کا کہنا ہے کہ ’پشاور اس صوبے کا چہرہ ہے لیکن افسوس ہے کہ یہاں وہ کام نہیں ہو سکا جو ہونا چاہیے تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کا پہلا دور قدرے بہتر تھا جس میں بہت سے منصوبے شروع کیے گئے تھے مگر یہ تسلسل برقرار نہیں رہ سکا اور شہر کی حالت بگڑ گئی۔‘
عرفان سلیم کے مطابق ’پی ٹی آئی پشاور کے تمام ورکرز اس بات پر متفق ہیں کہ ہم نے شہر کی حالت بہتر بنانی ہے جس کے لیے صوبائی حکومت سے بات چیت بھی جاری ہے۔ آئندہ ایک برس میں شہر میں واضح تبدیلی نظر آئے گی۔‘
پی ٹی آئی کے ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’موجودہ حکومت کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں مگر غیرسنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ سوائے بیان بازی کے اور کچھ بھی نہیں ہو رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بانی چئیرمین (عمران خان) کی آزادی ضروری ہے مگر عوامی مینڈیٹ کو مدِنظر رکھتے ہوئے لوگوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے بھی کام ہونا چاہیے۔‘
’حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے حلقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی آ رہی ہے۔ لوگوں کو عمران خان سے پیار ہے مگر موجودہ حکومت کے بارے میں ان کی رائے منفی ہے۔‘
’ووٹ عمران خان کی رہائی کے لیے ملا تھا‘
تاہم پشاور سے منتخب رُکن صوبائی اسمبلی فضل الٰہی کا کہنا ہے کہ ’آٹھ فروری کو عوام نے انہیں عمران خان کو رہا کروانے کے لیے ووٹ دیا تھا۔ صوبے میں 10 برسوں سے ترقیاتی کام ہو رہے ہیں اور آگے بھی ہوتے رہیں گے، مگر اس مرتبہ انہیں جس مقصد کے لیے ووٹ ملا تھا، اس حوالے سے کام کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سب کو معلوم ہے کہ عوام نے پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو ووٹ کیوں دیا نہ ہمارے پاس انتخابی نشان تھا نہ ہمیں انتخابی مہم چلانے دی گئی مگر عوام نے انتقام لینے کے لیے ہمیں کامیاب کروایا۔‘
فضل الٰہی کا کہنا تھا کہ ’اپنے ووٹرز کو مایوس نہیں کریں گے اور انہیں بہت جلد خان صاحب کی رہائی سے متعلق خوش خبری سنائیں گے۔‘

’عمران خان کی رہائی سب سے اہم ہے‘
وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کے فوکل پرسن برائے اقلیتی امور وزیر زادہ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی درحقیقت قانون اور آئین کی آزادی کے مترادف ہے کیوںکہ عمران خان کی جدوجہد قانون کی بالادستی کے لیے ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کی آزادی پی ٹی آئی کے ووٹرز کا اولین مطالبہ ہے جس کے لیے ہماری قیادت اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہی ہے۔‘
پی ٹی آئی کے رہنما وزیر زادہ کے مطابق ’خیبر پختونخوا حکومت ترقیاتی منصوبے بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ صحت کارڈ کی بحالی، شاہراہوں کی تعمیر، احساس گھر پروگرام اور نوجوانوں کو کاروبار کے لیے بلاسود قرضے دیے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں صوبائی حکومت نے سولرائزیشن سکیم پر بھی کام شروع کر دیا ہے۔‘
’سیاسی مخالفین پروپیگنڈا کرتے رہیں لیکن ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی باری نہیں آنے والی اور عوام دوبارہ عمران خان کو ہی ووٹ دیں گے۔‘
وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کا دعویٰ
وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈا پور نے اپنی حکومت کی کارکردگی سے متعلق سوال پر میڈیا کو بتایا کہ ’عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام پر ہی خرچ کیا جا رہا ہے۔ تمام ترقیاتی منصوبے وقت پر مکمل کیے جائیں گے۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’پی ٹی آئی کی اصلاحات کے بعد خیبر پختونخوا ملک کا امیر ترین صوبہ بن چکا ہے۔ کرپشن کے دروازے بند کیے جا چکے ہیں، جو پیسہ غائب ہوتا تھا، وہ اب خزانے میں جمع ہو رہا ہے۔‘
وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ ’13 ماہ میں حکومت نے ایک روپیہ قرض نہیں لیا بلکہ 50 ارب روپے کا پرانا قرض اتارا ہے۔ آئندہ بجٹ میں ہرحلقے کو دو ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔‘
’ایک شخص کے لیے عوامی مینڈیٹ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے‘
خیبر پختونخوا کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے تجزیہ کار ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے کہا کہ ’موجودہ حکومت سے ترقیاتی کام کرنے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیوںکہ تمام رہنماؤں کا ایجنڈا عمران خان کی رہائی ہے اور اسی مقصد کے لیے بھاگ دوڑ ہو رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صوبے کو اس وقت بدامنی، بے روزگاری کے علاوہ مالی بحران کا بھی سامنا ہے مگر حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔‘
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے کہا کہ ’ایک شخص کے لیے عوامی مینڈیٹ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جو اس صوبے کے ساتھ ناانصافی ہے۔‘
دوسری جانب سینیئر صحافی محمد فہیم نے کہا کہ ’ہر حکومت کے دور میں پشاور کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ حکومت کے پاس جب بھی فنڈز کی کمی ہوتی ہے تو سب سے زیادہ نقصان پشاورکو اٹھانا پڑتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کے پاس سرپلس بجٹ ہے مگر وہ آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق سرپلس بجٹ خرچ نہیں کرے گی۔‘
محمد فہیم کے مطابق ’پشاور میں وقتاً فوقتاً کلین اینڈ گرین پشاور، پشاور اَپ لفٹ پروگرام، ڈرگ فری پشاور، بیوٹیفیکیشن آف پشاور جیسے منصوبے شروع ہوئے مگر آج تک یہ مکمل نہیں ہوئے اور نہ ان کے نتائج نظر آ رہے ہیں۔‘
’پرویز خٹک کے دور سے کچھ منصوبے چلے آ رہے ہیں مگر وہ کب مکمل ہوں گے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘
محمد فہیم کا مزید کہنا تھا کہ ’پشاور کی قیادت ہمیشہ سے بولتی آئی ہے چاہے وہ کسی پارٹی سے ہو، انہوں نے ہمیشہ شہر کے لیے آواز اٹھائی ہے مگر اب دیکھنا ہے کہ موجودہ حکومت اس پر کیا ردِعمل دیتی ہے۔‘