ہند واپس جاکر بھی اسلامک بینکنگ کے قیام کی کوشش کروں گا،ڈاکٹر اسرارالحق
جمعرات 6 جولائی 2017 3:00
ہندوستانی یا پاکستانی اپنے ملک جاکر اپنی اقتصادی تگ ودو پھر سے شروع کریں،دیار غیر میں رہنے والے ہندوستانی یا پاکستانی آپس میں ہمیشہ اچھے اور خو شگوار ماحول میں ہی رہتے ہیں
- - - - - - - -
انٹرویو :مصطفی حبیب صدیقی
- - - - - - - -
محترم قارئین آج پردیس میں بسنے والے ہم وطنوں کے اس صفحے پر ہم آپ کی ملاقات ہندوستان کے ایک ایسے شہری سے کرانے جارہے ہیں جو نہ صرف ماہر معاشیات ہیں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کیلئے بالخصوص اور ہند کیلئے بالعموم اپنے تجربات کی روشنی میں بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر اسرار الحق20جولائی1992ء کو سعودی عرب آئے اور 25سال بعد واپسی کی تیاری کررہے ہیں۔ابتدائی تعلیم لکھنئو سے حاصل کرنے کے بعدیونیورسٹی آف لکھنئو سے معاشیات میں ماسٹرز کیا اور شعبہ تحقیق کیلئے اپنااندراج کرالیا۔ غیرملکی یا بیرونی تجارت کے حوالے سے تحقیق کی ۔ پھر شعبہ تعلیم و تدریس سے وابستہ ہوگئے ۔آئیے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
*اردونیوز:اسلام علیم ،1992 ء میں جدہ آنے کے بعد کس جگہ ملازمت کی؟
* ڈاکٹر اسرار الحق : سب سے پہلے تو اردونیوز کا شکریہ کہ اتنا اچھا سلسلہ شروع کیا ہے جس سے پردیس میں بسنے والے ہم وطنوں کے بارے میں آگاہی ہورہی ہے۔آپ کے سوال کا جواب ہے کہ1992ء میں جدہ آنے کے بعد انٹرنیشنل انڈین اسکول جدہ میں پڑھانے کا موقع ملا اور17سال تک ہندوستانی کمیونٹی کو اقتصادیات کی درس وتدریس دی۔2009 ء میں بٹرجی میڈیکل کالج آف سائنس اینڈ ٹیکناجی سے منسلک ہوا اور 2017ء تک شعبہ صحت سے وابستہ رہا ۔ساتھ ہی لیگل ایشوز اور پرفارمنس مینجمنٹ سمیت اسلامک اکنامک بھی پڑھایا ۔اس کے ساتھ ہی اسلامک اکنامکس اور اسلامک بینکنگ پر تحقیقات بھی مکمل کرتا رہا۔
* اردونیوز :25سال ،ایک طویل عرصہ ہے کیسے لوگوں سے رابطہ رہا ،کیسی یادیں لے کر جارہے ہیں؟
* ڈاکٹر اسرار الحق :یہاں 25سال سے بہت خوشگوار ماحول سے سابقہ رہا۔بہت اچھے لوگوں سے رابطہ رہا۔نہ صرف ہندوستانی کمیونٹی بلکہ پاکستانی کمیونٹی سے بھی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔پاکستان رائٹرزفورم کے پروگرامات میں بھی شرکت کرتا رہا۔میری سماجی سرگرمیاں بہت اچھی رہیں۔جو کچھ بھی کمیونٹی کیلئے ہوسکا کرتا رہا ۔مثال کے طور پر میں نے 2009ء میں اسلامک مائیکرو فنڈ کی بنیاد ڈالی جس میں فیملی سیونگ کے ذریعے فنڈاکھٹا کیا جس کے ذریعے ان لوگوںکو قرض حسنات یا ذکوٰ ۃ اور چیرٹی کے ذریعے مدد کرتا رہا جو مستحق تھے یہ تجربہ بھی کامیاب رہا ۔
* اردونیوز:مملکت میں تارکین کے کردارکو کیسے دیکھتے ہیں او ر موجودہ معاشی صورتحال میں تارکین کو کیا مشورہ دینگے؟
* ڈاکٹر اسرار الحق : مملکت میں مختلف ممالک کے تارکین بہت اہم رول ادا کرررہے ہیں نہ صرف اقتصادی اور سماجی حوالے سے ان کی اپنی نجی زندگیاں بہتر ہورہی ہیں بلکہ خاص کر روحانی اور مذہبی حوالے سے بھی بہتری آرہی ہے جبکہ مملکت کی خدمت بھی اپنی دل جمعی سے بجا لارہے ہیں۔آج کل مملکت کے معاشی حالات تھوڑے خراب ہوئے ہیں اس وجہ سے تارکین پر بھی اثر پڑا ہے جس کی وجہ سے بہت سے تارکین کو اب روانگی کا ارادہ کرنا پڑ رہا ہے تاہم مجھے یقین کے اللہ تعالیٰ اس مملکت اور تارکین دونوں کیلئے ان حالات میں بھی خیر فرمائے گا۔
* اردونیوز:آپ ہند کیلئے کیا کام کرنا چاہتے ہیں یا کیا کرسکتے ہیں؟ *
ڈاکٹر اسرارالحق:میرا تعلق چونکہ شعبہ اقتصادیات سے ہے اس لئے میں ا س حوالے سے سوچتا رہا کہ ہندوستان کے شعبہ اقتصادیات میں کیسے بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ایک طریقہ تو یہ بھی تھا کہ یہاں سے تارکین اپنی بچت اور آمدنی سے کچھ ادا کریں تو حالات بہتر ہوں مگر میں خود اس بات کا قائل نہیں کہ تارکین سے کسی ملک کی اقتصادیات بہترہوتی ہے۔ اس لیے میں اس بات کا قائل ہوں کہ اگر یہاں کے حالات کے اچھے نہیں تو ہندوستانی یا پاکستانی اور دیگر تارکین وطن اپنے ملک جاکر اپنی اقتصادی تگ ودو کو پھر سے شروع کریں تاکہ آنے والے دور میں ان کیلئے بہتر حالات پیدا ہوسکیں۔میں کوشش یہی کرتا رہا کہ یہاں پر اسلامک بینکنگ اور ریسرچ کے حوالے سے اپنی جدجہد جاری رکھوں ۔اس حوالے سے دو مرتبہ دبئی اور ایک مرتبہ بحرین کا سفر کرنے کا بھی موقع ملا ۔جس میں مائیکروفنانس اور اسلامک بینکنگ کے حوالے سے کانفرنس میں شرکت کی ۔بحرین اسلامک بینکنگ کا حب ہے۔میں نے کوشش کی ہے کہ ہند واپس جاکر بھی کچھ اسی طرح اسلامک بینکنگ کے قیام کی کوشش کروں اور انشاء اللہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس سفر کو بھی آسان کریگا۔میں کوشش کروں گا کہ اپنے طور پر ایسی سرگرمیوں میں حصہ لوں جو نا صرف ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے مفید ہوں بلکہ ساری انسانیت کیلئے بھی کارآمد ہوں۔
* اردونیوز:آپ کا خاندان کتنے افراد پر مشتمل ہے اور بچے کیا کررہے ہیں؟
* ڈاکٹر اسرار الحق ـ:الحمد اللہ اللہ نے مجھے ایک خدمت گزار اہلیہ سے نوازا ہے۔ایک بیٹی 2بیٹے ہیں۔دونوں بیٹوں کی پیدائش جدہ میں ہوئی۔بیٹی کی شادی ہندوستان میں اپنے خاندان کے ایک صاحب سے کردی تھی۔ اب وہ بحرین میں مقیم ہیں اور کینیڈین شہریت بھی رکھتے ہیں تو بیٹی کو بھی شہریت مل گئی ہے جبکہ ان کا ایک بیٹا ہے۔ میرے بڑے بیٹے وسام، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بی کام کے دوسرے سال میں ہیں ۔چھوٹے بیٹے حشام نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا ہے اور اب گیارہویں میں تعلیم کاسلسلہ ہند میں جاری رکھیں گے۔
*اردونیوز:اسلامک بینکنک کیا ہے ؟کافی لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ بھی سودسے پاک نہیں؟
*ڈاکٹر اسرار الحق :اسلامی بینکنگ دراصل اسلامی معاشی نظام کی ایک فرع(شاخ) ہے۔اس وقت دنیا میں باالفعل تو دو ہی نظام ہائے معیشت موجود ہیں یعنی سرمایہ دارانہ اور اشتراکیت کے نظام معیشت ،تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اشتراکیت بھی دم توڑ چکی ہے ۔رہا اسلام کا نظام معیشت تو وہ دنیا کی ایک انچ زمین پر بھی بالفعل قائم نہیں ہے۔اس کا وجود تو صرف ہمارے ذہنوں میں ہے یا ہماری کتابوں میں موجود ہے۔لہٰذا اسلامی بینکنگ بھی اس کا شکار ہے۔لیکن پھر بھی چونکہ یورپ نے ا س بات کو تسلیم کرلیا ہے کے سود کے بغیر بنکاری زیادہ محفوظ ہے اور ا س کا تجربہ بھی کرکے دیکھا یہی وجہ ہے کہ سعود عرب اور خلیج کے ممالک میں کسی درجے میں اسلامک بینکنگ پر کام ہوا اور چند کمیوں کے باوجود وہ عوام میں مقبول ہورہی ہے۔
*اردونیوز:ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ حالت سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟ان حالات کا ذمہ دارکن کو سمجھتے ہیں؟
*ڈاکٹر اسرارالحق :ہندوستان میں اس وقت موجود ہ صورتحال کافی مایوس کن ہے۔مسلمان قطعی غیرمحفوظ ہیں جبکہ آج کا ہندوستانی مسلمان اتنا لاچار ہوچکا ہے کہ تقریباً ہر روز ملک کے کسی نہ کسی کونے سے مسلمانوں کی ہلاکت کی خبر سننے کے باوجود وہ بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنا ہوا ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم حکومتیں ہند کے مقابلے میں اتنی غیر موثر ہوچکی ہیں کہ ہند سے کسی حد تک اظہار تشویش بھی نہیں کرسکتیں،میں تو اسے کسی حد تک خدائی تنبیہ سمجھتا ہوں اور ہمیں چاہیے کہ اس میں کوئی خیر کا پہلو نکالتے ہوئے مثبت قدم اٹھائیں اور آمادہ اصلاح ہوجائیں۔
* اردونیوز: ہندوستانی مسلم نوجوانوں میں جدید تعلیم کا رحجان کس حد تک ہے؟
*ڈاکٹر اسرار الحق :عمومی طور پر مسلمانوں میں تعلیم کا رحجان کم پایا جاتا ہے ،کیا جدید اور کیا قدیم ،کچھ تو مواقع کی کمی،ناسازگار حالات اور ذہانت کا فقدان اور کافی حد تک اقتصادی مشکلات انہیں جبراً روزگار تلاش کرنے پر مجبور کردیتی ہیں ۔لہٰذا تعلیمی میدان میں ہندوستانی مسلمان آج بھی کافی پیچھے ہیں۔کچھ کمزور سی کوششوں کے نتیجے میں کسی حد تک طلبہ تعلیم کی جانب راغب ہوئے اور اب مقابلے کے امتحانوں میں حصہ لینا شروع کردیا ہے۔
*اردونیوز:غیر ملک میں رہتے ہوئے25سال گزاردینا بہت طویل ہے اگر آپ سے کہوں ایک جملے میں کہیں کہ کیا کھویا کیا پایا تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟
*ڈاکٹر اسرار الحق :سعودی عرب 38سال کی عمر میں آنا ہوا تھا اور اب63سال کی عمر مسنونہ میں واپسی ہورہی ہے لہٰذا ایک جملہ میں یہی کہہ سکتا ہوں ’’کھوئی جوانی پایا بڑھاپا‘‘۔
*اردونیوز:سعودی عرب میں شعبہ بینکنگ یا معاشیات میں نئے آنے والے ہندوستانی یا پاکستانی شہریوں کیلئے کتنے مواقع ہیں؟
*ڈاکٹر اسرار الحق :سعودی عرب میں تو اب غیر سعودیوں کیلئے مواقع تقریباً ہر شعبے میں مختصر رہ گئے ہیں ۔اسلامی بینکنگ اور فنانس میں اور بھی محدود ہوگئے ہیں۔
*اردونیوز:کوئی ایسا واقعہ ہم سے شیئر کرسکتے ہیں جو ان 25سال میں ایسا ہو جو تاحیات یاد رہے گا؟
*ڈاکٹر اسرار الحق :کوئی واقعہ تو فی الوقت ایسا یاد نہیں آرہا لیکن حسین یادیں ضرور ذہن مین ہیں۔سب سے خوبصورت یاد تو حرمین شریفین کی میری پہلی حاضری جس میں ایک خاص قسم کی روحانی ارتقعاکی حرارت محسوس ہوئی تھی لیکن بدقسمتی سے اس کے بعد پھر وہ کیفیت کبھی میسر نہیں آئی ۔چند مشہور دینی اسکالرز سے نجی ملاقاتیں اور ان سے تشفی بخش طویل گفتگو جن میں احمد دیدات ،ڈاکٹر اسراراحمد اور ذاکر نائیک شامل ہیں اور یہی سعودیہ کے قیام کی قیمتی اثاث ہیں۔
* اردونیوزـ:کہاجاتا ہے کہ ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے آپ کی کامیابی میں آپ کی اہلیہ کا کتنا کردار ہے؟
* ڈاکٹر اسرار الحق :او ل تو میں اپنے آپ کو کامیاب مردوں کی فہرست سے ہی خارچ سمجھتا ہوںاور اس میں بیگم کا ہی ہاتھ ہوسکتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں میں آج جس مقام پر بھی ہوں اس میں بیگم کا بھر پور تعاون ملا اور ان کے ہی مکمل تعاون نے مجھے مکمل عزم وہمت سے اپنے کام مکمل کرنے کا حوصلہ ملا۔
* اردونیوزـ:آپ نے ایک عمر گزاری ،بہت کچھ حاصل کیا ،ماشاء اللہ بچے بھی کافی بہتر پوزیشن میں ہیں پھر بھی کیا کبھی کوئی کسک ہوتی ہے کہ ہندوستان میں اپنا ابائی علاقہ چھوڑ دیا،گلی محلہ ،دوست احباب کچھ یاد آتا ہے؟
* ڈاکٹر اسرارالحق: الحمد اللہ میں پچھتانے کی بیماری سے تو محفوظ ہوں اس لئے سعودی عرب چھوڑنے کا یا ہندوستان چھوڑنے کا کوئی افسوس کبھی دل میں نہیں ہوا۔یاد رکھیں اللہ آپ کی زندگی کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور یہی کافی ہے جس کی آپ کو ضرورت ہوتی ہے۔ رزاق تو اللہ تعالیٰ ہے اور وہی دیتا ہے۔
* اردونیوز:آپ لکھنو کے جس محلے میں پلے بڑھے وہاں کے کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے نام آج بھی آپ کو یاد ہیں یا ان کی باتیں یاد کرتے ہیں؟
* ڈاکٹر اسرارالحق:لکھنئو کا وہ علاقہ جہا ں میرا بچپن گزراآج بھی یاد ہے گوکہ اس کی topology بدل چکی ہے ۔ان بزرگوں کے نام بھی یاد ہیں جو بڑی شفقت فرماتے تھے ۔مثلاً صغیر صاحب،حبیب صاحب اور ان کے بھی جو شدت سے پیش آتے تھے جناب گوہر صاحب ،حکیم مسیح الزماں ۔
* اردونیوز:اکثر پاک وہند کی حکومتوں میں تنائو آجاتا ہے،دونوں اطراف سے تند وتیز جملوں کے تبادلے ہوتے ہیں مگر غیرملک میں تو پاکستانی وہندستانی خاص طور پر مسلمان ہندوستانی ایک ساتھ رہتے ہیں کیا حکومتی سطح پر تلخی عوام میں بھی دوری پیدا کرتی ہے؟
* ڈاکٹر اسرارالحق:حکومتی سطح پر تلخیاں حکومتوں کی آپ پیدا کردہ ہیں یہ تلخیاں حکومتو ںکے اپنے مفاد پر مبنی ہیں۔ اس کے مضراثرات گو عوام پر بھی پڑتے ہیں لیکن دیار غیر میں رہنے والے ہندوستانی یا پاکستانی آپس میں ہمیشہ اچھے اور خو شگوار ماحول میں ہی رہتے ہیں۔میرا ذاتی تجربہ تو کچھ ایسا ہی ہے کیونکہ اتفاق سے میرے کالج کے ساتھی پاکستانی رہے ہیں اور گھر کے پڑوس میں بھی پاکستانی خاندان سے سابقہ رہا ہے دونوں ہی بڑے ملنسار ،خوبصورت شخصیت اور اخلاق کے مالک تھے۔
* اردونیوز:آپ ایک تجربہ کار ماہر معاشیات ہیں اور اگر میں یہ کہوں کے آپ نے وہ علم حاصل کیا ہے جس پر ملک کا دارومدار ہوتا ہے تو غلط نہ ہوگا،ہندوستانی مسلمان نوجوانوں کو آپ کیا مشورہ دینگے کہ وہ کون سے علم سے زیادہ آگے بڑھیں تاکہ اپنی قوم کیلئے کچھ کرسکیں؟
* ڈٖاکٹر اسرارالحق:ماہری معاشیات کیلئے تو بڑے لطیفے مشہور ہیں جیسے’’An economist is an expert who will ’’know tomorrow why the things he predictetd yesterday did not happen todayـــ ـیا ’’In a group of three economist one fill find five opinionsـ‘‘جہاں تک مسلمان نوجوانوں کا تعلق ہے تو میں یہ کہوںگا کہ کسی بھی شعبہ سے منسلک ہونے سے پہلے ایک شخص کو سنجیدگی سے اپنا محاسبہ کرلینا چاہیے کہ اس کی دلچسپی ،اس کا رحجان اس کا Commitmentاور didicationاس پیشہ سے کتنا ہے ۔انہی بنیادوں پر اس کی کامیابی کا دارومدار ہے۔The urge to exell is important .One has to belive in the dignity of laborکوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا بشرطہ کہ نیک نیتی اور دیانت داری سے کیا جائے اور رزق حلال کمانے کی نیت تو ہر کام کو عبادت کا درجہ دیدیتی ہے۔ہماراآج کا نوجوان اگر اس شعر کے مصداق اپنی زندگیاں گزارے تو یقینا کامیابی اس اس کے قدم چومے گی ۔
* ’’میری زندگی کا مقصد تیری دیں کی سرفرازی،میں اس لئے مسلماں میں اسی لیے نمازی‘‘ــــــــــ