Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرقی مرد شادی سے پہلے اُلو بنتا ہے، پھر ساری زندگی اُلو بناتا ہے

مغرب کے مردوں میں شرم و حیا کا عنصر تو ہے لیکن استعمال کی ضرورت شاذ و نادر ہی پیش آتی ہے
* * * * *شہزاد اعظم ۔ جدہ* * * * *
مشرق اور مغرب کے ماحول اور موسم میں ہی نہیں بلکہ موجودات، جمادات و حیوانات میں بھی واضح فرق پایاجاتا ہے۔ مثال کے طور پر مغرب کے مرد بہت زیادہ آزاد، بے باک ہوتے ہیں اور ہر بات ببانگ دہل کہنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ ان میں شرم و حیا کا عنصر پایا تو جاتا ہے لیکن ساری زندگی اس کا استعمال کرنے کی ضرورت شاذ و نادر ہی پیش آتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں مشرقی مرد نہایت پابند قسم کے ہوتے ہیں ان میں آزادی اور بے باکی جیسے اوصاف موجود تو ہوتے ہیں مگر خواہش کی حدوں سے باہر نہیں آپاتے ۔ ان میں شرم و حیا بہت زیادہ پائی جاتی ہے ۔ ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ مشرقی مردوں میں شرم و حیا ء مغرب کی خواتین سے 41.5 گنا زیادہ ہوتی ہے ۔
ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ مشرق مرد جب اپنا گھر بسانے کی سوچتے ہیں تو وہ حسین ترین صنف مخالف کی تلاش شروع کردیتے ہیں ۔ متعدد کوششوں کے باوجود وہ اس کے حصول میں ناکام رہتے ہیں تاہم وہ کوششوں کا سلسلہ ترک نہیں کرتے ۔ اس کے مقابلے میں جب کوئی مشرقی خاتون گھر بسانے کا خواب دیکھتی ہے تو وہ کسی بھی پسندیدہ صنف مخالف کو " الو" بنالیتی ہے ۔
الو بننے کے بعد وہ مشرقی مرد خاتون مشرق کا خادم ، خدمت گزار ، مطیع و فرمابردار اور انتہائی ملنسار و نرم گفتار اور عالی کردار کا حامل ہوجاتا ہے ۔ انجام کار وہ خاتون کو بیاہ کر اپنے گھر لے آتا ہے ۔ شادی کے چند روز بعد ہی اس کا تمام الو پنا کافور ہوجاتا ہے ، صورتحال بدل جاتی ہے اور اب وہ اپنی اہلیہ کو الو بنانا شروع کردیتا ہے ۔ یوں باقی ماندہ ساری زندگی وہ الو بنانے میں گزار دیتا ہے ۔
ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ مشرق نے الو اور گدھے جیسے جانوروں کو خواہ مخواہ ہی تیسرے درجے میں شمار کرتے ہیں ۔ عموما ًان جانوروں سے کم عقلی ، بدھو پنا اور جہالت جیسی ’’خصلتیں‘‘ مستعار لی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو الو یا گدھا کہہ دے تو وہ مرنے ، مارنے کو تیار ہوجاتاہے اور سارے خاندان کی ایسی کی تیسی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا اس کے برخلاف مغرب میں اگر کسی شخص کو آپ الو کہہ دیں تو یا گدھا کہنے کی کوشش کریں تو وہ جواباً آپ کا شکریہ ادا کرے گا اور خوش ہوجائے گا کہ آپ نے مجھے کتنے " قیمتی القاب " سے نواز ا ہے۔
ہماری قومی زبان’’اردو‘‘ میں بہر حال اُلو کو بے وقوف، پاجی، نامعقول، بالکل ہی گدھا اور ناہنجار قسم کا وجود قرار دیاجاتا ہے ۔اُلو کے حوالے سے لغتِ ریختہ میں کافی کچھ کہا گیا ہے مثال کے طور پر ’’اُلو بنانا، اُلو بننا، اُلوبولنا، اُلو پھنسنا، اُلوکا گوشت کھایا ہے، اُلوکا گوشت کھلانا، اُلوکرنا، اُلوکی خاصیت رکھنا، اُلوکی دُم فاختہ، اُلو ماں کا خبطی بیٹا ، اُلوہونا اور اُلوہے‘‘ جیسے محاورے ریختہ میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ اُلوبنانا ا ور اُلوبننا، ایسی حقیقتیں ہیں جو اس تحریر کی ابتداء میں ہی بیان کی جا چکی ہیں۔
جہاں تک اُلو بولنے کا تعلق ہے تو اس سے مراد سناٹا، خاموشی یا تنہائی ہوتی ہے۔روز مرہ معمولات میں اس کی مثال یوں پیش کی جاسکتی ہے کہ جب کسی گھر میں میاں بیوی کے مابین تو تکار ہو جاتی ہے، دونوں ہی اپنا غصہ ایک دوسرے پر نکالیتے ہیں اور پھر جب وہ تھک ہار کر خاموش ہو جاتے ہیںتو گھر میں ایک نامانوس قسم کا سناٹا چھا جاتا ہے ، خاموشی اور سکون کا احساس ہوتا ہے، ایسالگتا ہے جیسے گھر میں تنہائی کا راج ہے۔ اس ماحول کو بر زبانِ اُردو بیان کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اس گھر میں تو ’’ اُلوبول‘‘رہے ہیں۔جب یہ تنہائی اور سناٹے کی کیفیات شعری تخئیل میں ڈھلیں تو ان کا منظوم روپ نکھرکر سامنے آیا۔ ایک شاعر نے اپنے شعر میں ’’اُلوبولنے ‘‘ کی کیفیت کا استعارہ یوں بیان فرمایا ہے:
یہ راز اب کوئی راز نہیں، سب اہلِ گلستاں جان گئے
 ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے، انجامِ گلستاں کیا ہو گا
اُلوکا گوشت کھانا یا کھلانا ،یہ سلسلہ آج سے 6سال قبل تک تو انتہائی احمقانہ اور غیر انسانی محسوس ہوتا تھا مگر جب پتا چلا کہ گدھے کا گوشت لاہور میں اور نجانے کہاں کہاں عام عوام کو کھلایاجا چکا ہے تب سمجھ میں بات آئی کہ غیر منقسم ہندوستان میں کبھی ایسا ہوا ہو گا کہ عام عوام کواُلوکا گوشت کھلا دیا گیا ہو گا اسی لئے یہ بات لغت کا حصہ بن گئی۔

شیئر: