Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رنگ تغزل

 دل کو ملا سکوں، نہ نظر خیمہ زن ہوئی
 پھر آگیا وہ سامنے، پھر اک چبھن ہوئی
 جی چاہتا ہے، ڈوب کر مرجاؤں آج میں
 خاموش تھی جو کل تلک محو سخن ہوئی
 اس نے کہا کہ ہاتھ ملا لوں، ملے گا کیا
مقطع میں آ کے بات، سخن گسترن ہوئی
 میں ہم کلام خود سے ہوں، کیا شاعری میری
لفظوں کا کھیل، محفل شعر و سخن ہوئی
ہر ایک پوچھتا ہے، خوشی کا سبب ہے کیا
 سانسوں میں بس کے نکہت گل پیرہن ہوئی
کیسے کہوں کہ دل میں اترتی وہ کس طرح
 ندی کسی پہاڑ کی اب جل ترن ہوئی
 دیکھا کبھی تھا سامنے گڑیوں سے کھیلتے
 قد کھل گیا تو آج وہ سر و سمن ہوئی
-------------------------------
ڈاکٹر شفیق ندوی ۔ ریاض
-----------------------------
 جب بھی کوئی خلوص کا دریا دکھائی دے
میرا وجود کیوں مجھے پیاسا دکھائی دے
 باطن میں ظاہری کا سراپا دکھائی دے
اے کاش کوئی تو مجھے ایسا دکھائی دے
جس کی جبیں پہ آئے شکن مجھ کو دیکھ کر
 اُس آئینے میں کیوں مرا چہرا دکھائی دے
اس طرح زندگی کا اڑادے ورق ورق
دیباچۂ حیات بھی تنہا دکھائی دے
 وہ اپنی آنکھ کا اگر شہتیر دیکھ لیں
پھر نہ کسی کی آنکھ کا تنکا دکھائی دے
 تاریک رہ گزر پہ ستم کی یہ تیرگی
جنگو ہمیں تو ٹوٹتا تارا دکھائی دے
 اخترترا مزاج تو ہے تو دھوپ کا سفر
 بارش نہیں تو ابر کا ٹکڑا دکھائی دے
------------------------
سہیل اختر ہاشمی۔ کراچی

شیئر: