* * * عزیز بلگامی* * *
خالق و مالکِ کائنات جو ادوار کا خالق ہے جو زمانوں کا خالق ہے، ہر زمانے کے اِنسانوں کا خالق ہے ،اِنسانوں کی سمجھ بوجھ کے معیار ہی کانہیں بلکہ ہرانسان کی ذہنی سطح کا بھی تخلیق کا رہے۔اپنی کتاب کو ایسی مختصر مگرپُرمغز آیتوں سے مزین فرمادیا ہے کہ جن میں گیرائی بھی ہے اورگہرائی بھی۔فہم و ادراک کی جن میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں اور ایسی آسانیاں جو بیک وقت دانشمندوں کی دانشوری کو بھی ہدایت کے اُجالے عطا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عام آدمیوں کی سطحِ فہم کا لحاظ رکھنے والی بھی ہیں کہ ہر سطح اورہر صلاحیت کے افراد غور و فکر پر آمادہ ہو سکیں۔ مثالیں بھی ایسی کہ جن سے اِن کا رات دن کا واسطہ رہتاہے اور کسی دور کا انسان کیوں نہ ہو اِن سے ناواقف نہیں رہ سکتا ۔
مثلاً اُس اِنسان کو پاگل قرار دیا جائے گا،جس کا یہ دعویٰ ہو کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی آسمان سے پانی کے برسنے کا منظر نہیں دیکھا ۔ اِسی طرح گرمی کی شدت سے زمین کا شق ہونا،بارش کے موسم میں اِس کا دوبارہ زندہ ہوجانا، زمین سے نباتات کا اُگنا، اِس پر باغات کا پھلنا پھولنا، انسانی زندگی کی بقا کے لئے رزق کی فراہمی جیسے واقعات پر مشتمل ایک بے عیب نظام کا مشاہدہ وہ مسلسل کرتا رہتا ہے، ہر زمانے میں کرتا رہتا ہے اور زمین کے ہر خطے میں کرتا رہتا ہے۔ پھر جانوروں کی غذا کا سامان بھی یہاں کس طرح فراہم ہوتا ہے ، اِسے بھی وہ مسلسل دیکھتا رہتا ہے۔ اِن سے اُسے دودھ اور گوشت کے علاوہ چرم جیسی دیگر کئی کارآمد اشیاء مہیا ہوتی رہتی ہیں چنانچہ قرآنی آیتوں کے فہم کے بارے میں ایک فہیم و ذکی شخص اپنی نام نہاد ذہانت کے بل پرقرآنی آیات سے بے نیازی نہیں برت سکتا، نہ احساسِ برتری کا شکار ہو سکتا ہے اور نہ ایک سادہ مزاج عام آدمی اپنی نام نہاد سادگی کے بل پر اِنہیں مشکل کہہ کر اِن سے دوری اِختیار کرنے کی جرأت کر سکتا ہے ۔
یہ اِن آیتوں ہی کا کمال ہے کہ یہ بلالحاظ ملک و قوم، علاقہ و سرحد، ادوار اور وقت، اِنسانوں کی ہدایت کا یکساں طور پر ایک زندہ ذریعہ بن جاتی ہیں۔ اِسے محض انسان کی بد بختی کہیے کہ وہ ہدایت کی جستجو ہی سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور الکتاب سے دوری، چاہے وہ کسی بھی کمپلیکس کے تحت ہو، اِس طرزِعمل کے حتمی نتیجہ کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً سورۂ عبس کی یہ آیات ملاحظہ ہوں۔ اِن آیات پر تدبر کے ذریعہ توحید کی حقیقت کسی بھی معیار کے آدمی پر واضح ہوجائے گی: ’’اپنی غذائی ا جناس پر اور اشیائے خورد و نوش پر اِنسان ذرا غور تو کرے! بے شک ہم ہی نے آسمان سے ایک مقررمقدار میں بارش بر سائی ،ایک مناسب انداز سے زمین کو بھی ہم نے ہی شق کیا ،پھر ہم نے اِس زمین میں غلے اورفوڈ گرینس اُگائے اور انگورجیسے پھل اور ترکاریاں بھی اورزیتون اور کھجور کے قبیل کے پھل بھی اور نوع بہ نوع میوئوںسے لدے پیڑوں پر مشتمل گھنے باغات اور خوراک اور سامانِ زندگی کی فراہمی، تمہارے لئے بھی رزق اور تمہارے جانوروں کے لئے چارہ بھی۔‘‘(24،32 )۔
اللہ کی توحید کی اِس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُس نے زمین پر بسنے والی مخلوق کے لئے مذکورہ غذائی نظام کھڑا کیا جس کو نہایت سادہ سی لفظیات کے حوالے سے بیان کردیاگیا۔اگر اِلٰہ واحد نہ ہو تو غذاکی فراہمی کے نظام میں شامل اِن محرکات میں یہ غیر معمولی تال میل ہر گز نہیں ہوسکتا تھا۔مخلوق کی فراہمی ٔ غذا کایہ کامل نظام ایک خالق اور ایک ماسٹر ہی کے کنڑول میں ہے اور اِنسانی فلاح کے لئے مفید نتائج پیدا کررہا ہے۔ اگر اس منظم نظام کی کوئی ایک کڑی بھی غائب ہوجائے تو سارے کے سارے انسان مل کر بھی اسے جوڑ نہیں پائیںگے، نہ اپنی زندگی میں غذا کی بنیادی ضرورت پوری کر سکیں گے۔ یہ ہیں اُن بے شمار احسانات میں سے کچھ احسانات جن کے جواب میں مالک کائنات کے حضور جذبۂ تشکر سے اِنسانی سروں کو جھک جانا چاہیے لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ عام طور پر ایسا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بے پناہ احسانا ت سے فائدہ اُٹھانے والے یا تو غفلت کا شکار ہیں یا ’’شانِ بے نیازی‘‘ کی حماقتوں میں مبتلا ہیں۔