دنیا بھر میں جدید’’انجینیئرڈ اطوار‘‘ اور تصورات عام ہو رہے ہیں ،ترقی کے نام پر بھگدڑ مچی ہوئی ہے اور ہم جیسے لکیر کے فقیر اس بھگدڑ میں کچلے جا رہے ہیں
* * * *شہزاد اعظم* * * *
ہمارے جیسے ہرانسان کو زندگی میں بعض لوگ ایسے ملتے ہیںجو اسے ہزار آنکھ بھاتے ہیں، وہ انہیں ہر وقت دیکھنا چاہتا ہے چنانچہ انہیں ہر دم اپنے ہم قدم رکھنا چاہتا ہے مگر اس کی یہ طلب ایک ارمان بن کرقلبی قبرستان میں دفن ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح بعض ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو انسان کو ایک آنکھ نہیں بھاتے، وہ ان کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا اورانہیں ہر دم اپنے آپ سے ہزار قدم دور رکھنا چاہتا ہے لیکن اس کی یہ طلب بھی ایک آرزو بن کر کچوکے لگاتی رہتی ہے۔پھتوبھی ایسی ہی ہستی ہے ۔ اسکا اور ہمارا ساتھ پیدائشی ہے۔ وہ اس طرح کہ ہم نے فقیرکالونی کے جس میٹرنٹی ہوم میں آنکھ کھولی تھی ، وہیں ہمارے ساتھ والے پلنگ پر پھتو،دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد’’ محوِ حیات‘‘ تھے۔ ’’نرس‘‘ کہہ کر پکاری جانے والی ایک دوشیزہ ، دیکھ بھال کے بہانے بار بار کمرے میں آتی اور گاہے چٹکی اور کبھی سیٹی بجا کر ہماری توجہ سمیٹنے کی کوشش کرتی۔ ہم نے اسی سے استفسار کر ڈالا کہ ہمارے ساتھ والے بستر پر جو ’’محترم‘‘ سو رہے ہیں وہ کون ہیں۔ ’’نرس‘‘ نے کہا کہ ان کا نام پھتو ہے اوردنیا میں پہلے آنکھ کھولنے کے باعث وہ آپ سے سینیئر ہیںیعنی بلحاظِ عمر وہ آپ سے پونے 2منٹ یعنی 105سیکنڈ بڑے ہیں۔ یقین جانئے!وہ دن سو آج کا دن،پھتوہر جگہ کسی نہ کسی بہانے ہمارے ہم قدم رہتا ہے اسی لئے ہم اسے پیدائشی ہمسایہ کہتے رہے ۔
ہم ربع صدی قبل جب مملکت آئے تو ایک جانب جہاں اپنوں سے دوری پر دل اُداس تھا وہیں پھتو سے دور ہونے کے باعث بلیوں اچھل رہا تھا۔ اسی قلبی اچھل کود میں مگن ہم جدہ پہنچے اور جیسے ہی ایئر پورٹ کے ’’سالے‘‘ کو چھوڑ کر آگے بڑھے تو ایک نوجوان نے ہمارے ہاتھ سے سامان لے لیااور کہا انکل جی! میں ’’بِن پھتو‘‘ ہوں، صبح ہی صبح ابو جی کافون آگیا تھا ۔ ان کا حکم تھا کہ میں آپ کو لینے کیلئے پہنچ جاؤں۔ بس وہ دن سو آج کا دن’’بِن پھتو‘‘ سائے کی طرح ہمارے ساتھ ہے ۔بعض اوقات ہم اپنے آپ سے ہی استفسار کرتے ہیں کہ نسل در نسل ہم قدم رہنے کوکون سی قسمتی قرار دیا جائے ، خوش یا بد؟اس سوال کا جواب زندگی میں پہلی مرتبہ ہمیں چند گھنٹے قبل مل گیا اور ہم نے خود کو ’’سب سے خوش نصیب تارکِ وطن‘‘کا خطاب دے دیا کیونکہ ’’بِن پھتو‘‘ نے ہمیں وہ فراست و فہم عطا کی جو دنیا کے کسی نصاب میں ، جامعہ کی کسی کتاب میں،کسی علم میں، کسی حساب میں ہمیں نہیں مل سکتی تھی۔بن پھتو کی گفتگومن و عن پیش کی جا رہی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کا ہر ہر حرف آپ کے ذہن میں روشن چراغِ فطانت کے شعلے پرگھاسلیٹ کا قطرہ بن کر گرے گا۔ ’’بِن پھتو‘‘ نے کہا:
’’چاچا جی!ہماری پسماندگی کا ایک سبب یہ ہے کہ ہم فرسودہ خیالات کے پروردہ ہیں۔ دنیا بھر میںجدید’’انجینیئرڈ اطوار‘‘ اور تصورات عام ہو رہے ہیں ، لوگ آنکھیں بند کر کے سرپٹ دوڑے جا رہے ہیں،ترقی کے نام پر بھگدڑ مچی ہوئی ہے اور ہم جیسے لکیر کے فقیر اس بھگدڑ میں کچلے جا رہے ہیںاسی لئے انجام یہ ہوتا ہے کہ ہرجلسے میں افراد2لاکھ اور انتخابات کے وقت بیلٹ بکس میں فقط سگریٹ کی راکھ۔پھرہارنے وا لا بھِناتاہے کہ دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلا ہوا اور جیتنے والا چلاتا ہے کہ عوام نے جنہیں ٹھکرا دیا ان کا منہ کالاہوا۔ یوں بظاہر اکثریت دکھائی دینے والے ہار جاتے ہیں اور اقلیت نظر آنے والے جیت جاتے ہیں۔ اس کا اصل سبب ’’انجینیئرڈ تگ و دو‘‘ہوتی ہے ۔ اس تکنیک کے باعث سیاسی میدان2 واضح طبقات میں منقسم ہو جاتا ہے ۔ ایک طبقہ صاحبانِ اختیار کا ہوتا ہے اور دوسرا بے اختیار صاحبان کا۔جیتنے والا طبقہ کہتا ہے کہ اگر دھاندلی ہوئی ہے توثبوت لائو اورعدالت میں جاؤ ۔
ہارنے والاطبقہ پکارتا ہے کہ اگر ہمت ہے تو دوبار ہ مقابلے کیلئے سامنے آؤ۔ہارنے والا دھاندلی کے ثبوت اکٹھے کرنے کیلئے نگر نگر جاتا ہے اور جیتنے والا اپنی چالیں کامیاب ہونے پر بغلیں بجاتا ہے ۔ پھر دونوں فریق جا بجا جلسے کرتے ہیں،ان میں نوجوان آتے ہیں اور وہ اپنے قائد کی للکار پہ رقص کرتے ہیں۔ جیتنے وا لا ، ہارنے والے کے جلسے میں اپنے رہنما کے خطاب پر جھومنے کو ’’بے حجابانہ رقص‘‘ قرار دیتا ہے اور اپنے جلسے میں’’ تھرکنے ‘‘والے مرد و زن کوجذبات کی سرشاری کا عکس قرار دیتا ہے۔صاحبانِ اختیار اپنے جلسوں میں ’’بے اختیار صاحبان‘‘ پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیںاور انہیں ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔اُدھر ’’بے اختیار صاحبان‘‘ اپنے جلسوں میں صاحبانِ اختیار کو کرۂ ارض پر بوجھ قرار دیتے ہیںاور انہیں عوام کے مصائب کا اصل ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ انجام یہ ہوتا ہے کہ ملک کے طول و عرض کے سیاسی حلقوں میں ہا ہا کار مچی رہتی ہے اور ہر سیاسی ہستی عوام کے عتاب سے بچی رہتی ہے۔’’بِن پھتو‘‘ نے کہا کہ یہ دقیانوسی وتیرہ ہے۔ اسے ترک نہ کیا تواس فرسودہ نظام کے ہاتھوں یرغمال بنے مزید 70سال بیت جائیں گے اور ہم یونہی پسماندگی کی جانب سرکتے جائیں گے۔
آپ اگراسپِ وطن کو ترقی کے موٹر وے پرسرپٹ دوڑانہ چاہتے ہیں توآپ کو ’’انجینیئرڈجمہوریت‘‘اپنانی ہوگی۔فرسودہ طریق کار کو خیرباد کہنا ہوگا۔اپنی ’’تصویرِ تصور‘‘کا رُخ بدلنا ہوگا۔ سیاہ کو سفید سمجھنا اور سفید کو سیاہ گرداننا ہوگا۔ ’’بِن پھتو‘‘کی باتیں سن کر ہم بحرِحیرت میںیوں مستغرق ہوئے کہ پلکیں جھپکنا اورمنہ بند کرنا ہی بھول گئے۔ ’’بِن پھتو‘‘ نے کہا کہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ’’انجینیئرڈجمہوریت‘‘ کیا ہے تو عرض ہے کہ یہ موجودہ جمہوریت کے بالکل اُلٹ ہے۔ آج کی جمہوریت میں سیاسی مخالفین پر الزامات کے تیر برسائے جاتے ہیں مگر ’’انجینیئرڈجمہوریت‘‘ میں سیاسی مخالفین پر ستائش کی بارش کی جاتی ہے ۔ اس کا کامیاب تجربہ ہمارے ہاں گیدڑ کالونی میں کیاگیا جہاں کونسلر کے انتخابات ہوئے ، سلیم اور نعیم ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ سلیم نے ’’فرسودہ جمہوریت‘‘اپناتے ہوئے نعیم کیخلاف الزامات کا طومار باندھ دیا اور کوشش کی کہ ’’بارِ ثبوت‘‘ بھی نعیم کے سر چلا جائے مگر نعیم نے ’’انجینیئرڈجمہوریت‘‘پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سلیم کی اتنی تعریفیں کیں کہ لوگ ہکا بکا رہ گئے۔ اس نے کہا کہ’’ سلیم اتنا عظیم ہے کہ پانچوں وقت کی نماز باجماعت ادا کرتا ہے۔ کل محلے کے جمعدار کی طبیعت خراب تھی تو سلیم نے خود ہی گلیوں میں جھاڑو دی۔
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آج ایک فقیرنی اس سے سوال کرنے لگی تو اس کی حالت دیکھ کر سلیم کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے اپنی جیب سے 100روپے نکال کرفقیرنی کودیئے۔ چند روز قبل وہ ایک اسکول کے دورے پر تھا جہاں اس نے اعلان کیا کہ وہ تمام بچوں کو اسکول بیگز خرید کر تحفے میں دے گا۔‘‘یہ سن کر سلیم نے سب سے چھپ کر نعیم سے ملاقات کی اور کہا کہ بھیا! آپ نے تو مجھے اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ میں اپنے ووٹرز کو منہ دکھا سکوں۔ جو بھی ملتا ہے کہ کہتا ہے کہ آپ توہمیں مسجد میں دکھائی نہیں دیئے، گلی میں کچرا بھی بکھرا پڑا ہے ۔ آج تو فقیرنی بھی گلی میں مانگتی رہی ،کسی نے ایک روپیہ بھی نہیں دیا۔ اسکول کے تمام بچے پلاسٹک کی تھیلیوں میں کتابیں لے کر اسکول جا رہے تھے۔ آپ سے اچھا تو نعیم ہے جس پر الزامات تھوپے تو ضرور گئے ہیں مگر ثابت کوئی بھی نہیں ہوا۔اب سارا بارِ ثبوت میرے کاندھوں پر ہے،آخر یہ سب کیا ہے نعیم صاحب؟ نعیم نے جواب دیاکہ یہ ہے ’’انجینیئرڈ جمہوریت۔‘‘