Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رسول رحمتﷺ کے گھوڑے

 
گھوڑے کو پیشانی سے پکڑ کر مت کھینچو کہ یہ اس کی تذلیل ہے،گھوڑوں کی تکریم کرو اور اسے باعزت رکھو
 
دوسرا حصہ
 
عبد الستارخان
 
عربوں کا گھوڑوں سے شغف کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک مرتبہ رسول اکرم کی خدمت میں ایک صحابی حاضر ہوئے اور بڑی بے چینی سے عرض کیا
اے اللہ کے رسول ! کیا جنت میں گھوڑے بھی ہوں گے؟۔
آپ مسکرائے اور فرمایا
اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں جنت میں داخل کیا اور تم نے وہاں سرخ یاقوت سے بنے ایک گھوڑے کی تمنا کی جس کے د وبڑے بڑے پر ہوں اور وہ تمہیں جنت میں جہاں چاہو لے کر اڑے تو اللہ تعالیٰ تمہاری یہ خواہش ضرور پوری کردے گا۔ 
غالباً اسی مقام پر اونٹ کا شغف رکھنے والے ایک صحابی نے سوال کیا
اے اللہ کے رسول! کیا جنت میں اونٹ بھی ہوں گے؟۔
آپ نے فرمایا
اگراللہ تمہیں جنت میں داخل کردے تو وہاں جو تم چاہو گے وہی ہوگا۔
 
روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم حضرت عائشہ ؓ کے حجرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ اماں عائشہ کے پاس مختلف شکلوں کے بنے کھلونے رکھے ہوئے ہیں ۔آپ نے دریافت فرمایا
عائشہ ؓ یہ کیا ہے؟ 
انہوں نے عرض کیا 
 اے اللہ کے رسول ! یہ میری بیٹیاں ہیں۔
ان کھلونوں میں ایک گھوڑا بھی تھا جس کے2پر تھے، اس کی طرف اشارہ کرکے آپ نے فرمایا
یہ کیا ہے؟
سیدہ عائشہؓ نے عرض کیا: یہ گھوڑا ہے۔ 
آپ نے پروں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا
 یہ کیا ہے؟ 
انہوں نے عرض کیا : یہ اس کے پر ہیں۔
 آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: گھوڑے کے پر ہیں؟،اماں عائشہؓ نے فرمایا: ہاں ! کیا آپ نے سنا نہیں کہ حضرت سلیمان(علیہ السلام ) کے گھوڑے کے2 پر تھے۔ یہ سن کر آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی داڑھ مبارک نظر آئی۔
 
عربوں میں معروف ہے کہ گھوڑے 3قسم کے ہیں: ایک گھوڑا رحمن کےلئے ہے، ایک گھوڑا شیطان کےلئے ہے اور ایک گھوڑا انسان کےلئے۔ رحمن کاگھوڑا وہ ہے جو آدمی جہاد کی نیت سے پالے اور اس کی رکھوالی کرے۔ اس گھوڑے کا پالنا، اسے چارہ دینا، اس کی نگرانی کرنااور یہاں تک کہ اس کے گوبر اور پیشاب کو صاف کرنا بھی پالنے والے کی نیکیوں میں لکھا جائے گا۔ 
 
شیطان کا گھوڑا وہ ہے جو جوا کھیلنے اور ریس میں دوڑاکر شرطیں لگانے کےلئے ہوتا ہے جبکہ انسان کا گھوڑا وہ ہے جو وہ اسے اپنی سواری کےلئے پالتا ہے۔
گھوڑوں کی تکریم کا حکم متعدد احادیث میں ملتا ہے،آپ نے فرمایا
گھوڑے کو پیشانی سے پکڑ کر مت کھینچو کہ یہ اس کی تذلیل ہے۔
 گھوڑوں کی تکریم کرو اور اسے باعزت رکھو۔
 
گھوڑا اپنے مالک کو پہچانتا ہے۔ اگر گھوڑے سے خلاف ِادب یا خلاف معمول یا خلاف توقع کام ہو تو اس کی سرزنش کی جائے اور اسے ٹوکا جائے ، رسول اکرم نے فرمایا
گھوڑے کی ملامت کرو اور اسے ٹوکو کیونکہ وہ ملامت سمجھتا ہے اور ڈاٹنے سے سنبھل جاتا ہے اوران کی تربیت کرو۔
ایک حدیث میں ہے
گھوڑے پر خرچ کرنے والا ایسا ہے جیسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا ہو۔
گھوڑے پالنے کی ترغیب قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں متعدد مرتبہ آئی ہے، ارشاد ربانی ہے
اس نے گھوڑ ے ، خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ باعث زینت بھی ہیں۔( النحل8)۔
 
سورہ الانفال ، آیت 60میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مرد مومن وہ ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کےلئے ہر وقت تیار رہتا ہے اورمیدان جنگ میں گھوڑا موثر ہتھیار ہے
اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کےلئے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعداءکو خوف زدہ کردو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میںصاحب تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں
مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس سامانِ جنگ اور ایک مستقل فوج ہر وقت تیار رہنی چاہئے تاکہ وقتِ ضرورت فورا ًجنگی کارروائی کرسکو، یہ نہ ہو کہ خطرہ سرپر آنے کے بعد گھبراہٹ میں جلدی جلدی رضاکار اور اسلحہ اور سامانِ رسد جمع کرنے کی کوشش کی جائے اور اس اثنا میں کہ یہ تیاری مکمل ہو، دشمن اپنا کام کرجائے۔
 
(جاری ہے)
 

شیئر: