Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمارا قومی وتیرہ،’’گھر کی مرغی ،دال برابر‘‘

 

ہم نے مٹی کی ہانڈیوں کو درخور اعتنا نہیں جانا تھا۔کیونکہ ہماری آنکھیں چمکتی دیگچیوں سے چار ہوتی رہتی تھیں

 

 

شین الف۔ جدہ 

من حیث القوم اگر ہم اپنے اطوار کا جائزہ لیں تو ایک بات انتہائی وثوق سے کہہ سکیں گے کہ ’’گھر کی مرغی، دال برابر‘‘ہمارا قومی وتیرہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہم اپنے ہاں کے سونے پر توجہ نہیں دیتے تاہم اغیار کے پیتل پر جان نچھاور کرنے کے لئے بے تاب و بے قرار رہتے ہیں۔ہمیں اپنے صحراؤں کا نخلستان دکھائی نہیں دیتا البتہ اغیار کی سراب کے لئے تن من دھن قربان کرنے پر تیار رہتے ہیں، ہمیں اپنے ہاں کی مرغی بے کا رکا کھاجا لگتی ہے مگرغیر کے ہاں کی دال دیکھ کر رال ٹپکتی ہے۔ہمیں ’’پرائی صلابت‘‘ دل و جان سے پیاری لگتی ہے اور ’’اپنی نزاکت‘‘مزاج پر بھاری لگتی ہے۔ ہمیںیورپ کی چمڑی اور پردیس کی دمڑی بے حد قیمتی لگتی ہے مگراپنوں کی سنگت اور گلاب جیسی رنگت بے وقعت دکھائی دیتی ہے۔ہم نے ہنزہ ، کالام، کاغان تو دیکھے نہیں تاہم سوئٹزرلینڈکے خواب ضرور دیکھتے ہیں۔ہم بھی وطن میں تھے تو یہی وتیرہ اپنائے ہوئے تھے ۔کھیوڑا سے حاصل ہونے والا نمک ہمیں اس لئے اچھا نہیں لگتا تھا کیونکہ یہ نمک دانی کے ڈھکنے میں موجود سوراخوں میں جم جاتا تھا ، کھڈی پر بُنے ہوئے کھیس ہمیں پسند نہیں تھے کہ یہ جدید مشینوں سے تیار شدہ نہیں۔ ہم کینو کی جانب زیادہ راغب نہیں ہوتے تھے کیونکہ یہ جا بجا ٹھیلوں پر فروخت ہوتے دکھائی دیتے تھے۔ ہمیں تازہ اور ’’صحتمند‘‘ مولی ، شلجم اور گاجر کی اہمیت کا احساس ہی نہیں تھا کیونکہ ہم سوچتے تھے کہ یہی ترکاریاں گدھے بھی کھاتے ہیں۔ہم ’’پاکستانی پاپوش‘‘پر توجہ ہی نہیں دیتے تھے کیونکہ ہمارے آنکھیں ’’اٹالین شوز‘‘پر مرکوز رہتی تھیں جن کی قیمت ادا کرنے کے لئے ہماری جیب میں موجود سرمایہ ناکافی ہوتا تھا۔ ہم پشاور سے آنے والے بادام پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ امریکی بادام وہاں کی دیگر اشیاء کی مانند لمبا تڑنگا، تندرست و توانا ، لحیم شحیم ہوتا تھا۔ ہمیں پاکستانی لٹھا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اسکی بجائے ہماری نظر ’’جاپانی کے ٹی‘‘ پر رہتی تھی۔

ہم نے مٹی کی ہانڈیوں کو کبھی درخوراعتناء نہیں جانا تھا کیونکہ ہماری آنکھیں تو اسٹیل کی چمکتی دمکتی دیگچیوںسے چار ہوتی رہتی تھیں۔ ہم نے گائے کے مکھن کو بھی اپنا نہیں سمجھا کیونکہ ہم تو مختلف کمپنیوں کی جانب سے پیک شدہ حالت میں فروخت کے لئے پیش کئے جانے والے ایسے مکھنوں کے عادی ہو چکے تھے جن کے ناموں کے آخر میں ’’پور ‘‘یا’’ پاک‘‘ کے لاحقے موجود ہوتے تھے۔پھر یوں ہوا کہ ہم پردیس جا بسے۔ جہاں ہمیں آٹے دال کا بھاؤ پتا چلا۔ نہ وطن جیسی صحتمند مولی تھی نہ گاجر تھی، نہ گول مٹول ٹینڈے تھے اور نہ سڈول شلجم تھا۔اس وقت ہمیں ’’ترکاریٔ وطن‘‘ کی اہمیت کا احساس ہوا۔ہم نے پاکستان کے 250روپے کی ایک چادر لی،اسے ایک ہفتہ استعمال کر کے دھویا تو اس چادر سے ہی ہاتھ دھونے پڑ گئے۔اس وقت ہمیں ’’پارچہ جاتِ وطن‘‘کی قدر معلوم ہوئی۔ ہم نے 1700روپے کے مساوی رقم خرچ کر کے جوتا خریدا، جرابیں چڑھائیں اور جوتا پہن کر گھر سے باہر نکلے۔ پیدل چلے جا رہے تھے، سڑک عبور کرتے وقت ایک تیز رفتار کار سے بچنے کی کوشش کی ، اس کار سے بچنا شاید جوتے کو ناگوار گزرا اور انجام یہ ہوا کہ جوتے کا’’ بالائی جسم ‘‘تو ہمارے پاؤں پر رہ گیا اور تلا سڑک پر پڑا رہ گیا ۔ ہم نے سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر اپنی جوتی کے تلے کو کاروں تلے روندے جانے کا عمل کافی دیر تک دیکھا اور پھر گھسا پٹا تلا اٹھا لائے۔

اس وقت ہمیں ’’کفش ہائے وطن‘‘کی منزلت کا ادراک ہوا۔ ہم نے سوتی لباس زیب تن کرنے کے شوق میں بازار کا رُخ کیا، ’’کاٹن‘‘ کے نام پر غیر ملکی پوشاک میسر آگئی۔ کئی سو روپے کے مساوی رقم ادا کر کے ایک سوتی جوڑا ’’اپنایا‘‘ تھا۔ دو 4مرتبہ پہنا تاہم 5ویں مرتبہ وہ لباس تن ڈھانپنے کے قابل نہیں رہا چنانچہ اسے فرش پر پونچھن کے طور پر استعمال کے لئے مخصوص کر دیا، اس وقت ہمیں’’ پارچہ بافانِ پاکستان ‘‘بہت یاد آئے۔ آج ہم نے قتلمہ دیکھا تو ایک مرتبہ پھر وہی کیفیت طاری ہوئی اور وہ وقت یاد آیا جب ہم وطن میں تھے اور قتلمے سے آنکھ ہی نہیں ملاتے تھے کیونکہ ہم تو اطالوی پیزاکے شیدائی تھے ۔سال میں ایک مرتبہ ہی سہی مگر جب بھی ’’چٹ پٹا جناتی پراٹھا‘‘ کھانے کا دل چاہتا تو اطالوی پیزا کھانے پہنچ جاتے،پھر وہاں سے پیٹ بھاری اور جیب ہلکی کر کے گھر لوٹ آتے۔یہاں ایک مرتبہ عیدالفطر پرکسی ہوٹل کی حدود میں قتلمہ تیار ہوتا دیکھاتو منہ میں پانی بھر آیا، ہم اطالوی پیزا شیزا بھول بھال گئے اور ہوٹل میں جا گھسے، ہم نے اس’’ جسیم پراٹھے‘‘ کا16واں حصہ کھایا تو پیٹ بھر گیا۔ اس موقع پر ہمیں ’’قتلمانِ وطن‘‘ یعنی ’’پاکستانی پیزا‘‘ بہت یاد آیا۔

سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میںہمارے وطن کی نادر و نایاب اشیاء کو متعارف کیوں نہیں کرایا جاتا۔دنیا کو یہ حقیقت باور کیوں نہیں کرائی جاتی کہ پاکستان میں ہر وہ نعمت اور ہر وہ صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے جو دنیا کے کسی بھی خطے میں پائی یا بنائی جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان میں بعض نعمتیں تو ایسی ہیں کہ جن کی مثال دنیا میں کہیں نہیں مل سکتی۔ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنے گھر کی مرغی کواغیار کی دال کے برابر سمجھنے کا وتیرہ ترک کر دیں اور دنیا جہاں پر یہ بات واضح کر دیں کہ ’’اُن کی مرغی کے سامنے ہماری دال برتر‘‘ کیونکہ ہماری دال اغیار کی مرغی سے زیادہ قیمتی ، لذیذ اور غذائیت سے بھر پور ہے۔بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی مصنوعات کی تیاری کے لئے عالمی معیارکو پیش نظر رکھیں اور عالمی معیار کے مطابق ہی اس کی تشہیر کریں تاکہ کرۂ ارض کے باسیوں کو آگاہی ہو سکے کہ محض اِک ملک کانہیں بلکہ ’’اک مکمل جہان کا نام ہے پاکستان‘‘۔

شیئر: