Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اقوام متحدہ نے ایران میں خواتین کے خلاف ’سخت کریک ڈاؤن‘ کی مذمت کر دی

ایران کی پولیس نے اپریل کے وسط میں حجاب کی ازسرنو کڑی نگرانی کرنے کا اعلان کیا تھا ( فائل فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ نے ایران میں حکومت کی جانب سے حجاب نہ لینے والی خواتین کو سزائیں دینے کے نئے سلسلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے جمعے کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ جن خواتین کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں، ان میں سے بعض کی عمر 15 برس ہے۔
ایران کے قانون کے مطابق خواتین کے لیے عوامی مقامات پر حجاب لینا ضروری ہے اور اس کی خلاف ورزی قابل سزا جرم ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے اس نئے قانونی بِل کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے جس کا عنوان ’خاندانی نظام کی حیا اور حجاب کی کلچر کے فروغ کے ذریعے حمایت‘ ہے۔
اس قانون کے تحت عوامی مقامات پر حجاب کے بغیر نظر آںے والی خواتین کو زیادہ سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان جیریمی لارنس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ہم نے گزشتہ مہینوں میں دیکھا اور سنا ہے کہ سادہ لباس اور وردی میں ملبوس پولیس اہلکار سختی سے حجاب کے قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایران میں خواتین اور 15 سے 17 برس کی لڑکیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی اطلاعات ملی ہیں۔‘
ایران کی پولیس نے اپریل کے وسط میں حجاب کی ازسرنو کڑی نگرانی کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

دو برس قبل مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں موت کے بعد ایران میں بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے (فائل فوٹو: اے پی)

جیریمی لارنس نے کہا ہے کہ ’ایران کے حکام نے سینکڑوں ایسے کاروباروں اور ہوٹلوں کو بند کر دیا ہے جہاں حجاب سے متعلق ضوابط پر عمل نہیں ہو رہا۔ اس کے علاوہ حجاب نہ لینے والی خواتین کو پکڑنے کے لیے خفیہ کیمرے بھی نصب کیے گئے ہیں۔‘
ایران میں بہت سی خواتین نے سنہ 2022 میں حجاب سے انکار کرنے والی 22 سالہ مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں موت کے بعد حجاب لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ایران میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف احتجاج ہوئے۔
ابھی تک اس تازہ ترین قانونی مسودے کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں تاہم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’اس میں حجاب کے ضابطے کی خلاف ورزی کرنے والی خاتون کو 10 برس قید، کوڑوں اور جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس قانونی بِل کو مسترد کر دینا چاہیے۔‘
انسانی حقوق کے دفتر نے 33 سالہ ریپر توماج صالحی کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
توماج صالحی کو مہسا امینی کی موت کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی کھلی عام حمایت کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔

شیئر: