Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میرے شوہر دوسرے کی خامی کونظر انداز کر دیتے ہیں، سلویٰ ہیثم

بچہ دنیا میں آکرگھر کے تمام معمولات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیتا ہے، چاہے تو پورے گھر کو ساری رات روروکر سر پر اٹھا ئے رکھے اور چاہے تو سکون سے سوجائے

زینت شکیل ۔جدہ

اس ہفتے ہماری ملاقات ینبع میں رہائش پذیر جوڑے محترم ہیثم اقبال اور ان کی اہلیہ سلویٰ سے ہوئی۔ دونوں مشترکہ خاندانی نظام سے نہایت مطمئن ہیں اور اسی میں معاشرے کی بہتری سمجھتے ہیں۔ ہیثم اقبال نے اعلیٰ تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعدمعروف کمپنی میں فرائض انجام دینے شروع کئے تو والدہ محترمہ نے فوراً شادی کی ذمہ داری سر پر ڈال دی ۔

اب سلویٰ اور ان کی ساس محترمہ ثمینہ اقبال ایک دوسرے کے ساتھ خوب شیروشکر رہتی ہیں۔ جہاں سلویٰ کو کھانا پکانے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے ان کی ساس فوراً انکی مدد کیلئے کچن کا رخ کرتی ہیں۔ ہیثم اقبال اپنے والدین کے فرمانبردار صاحبزادے ہیں تومحترمہ سلویٰ بھی سسرال میں اپنی سادہ دلی اور خوش اخلاقی کی وجہ سے پسندیدہ شخصیت شمار ہوتی ہیں۔ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بات ہوئی تو سلویٰ ہیثم نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک بے ضرر ننھا بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو گھر کے تمام معمولات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔

چاہے تو پورے گھر کو ساری رات روروکر سر پر اٹھا ئے رکھے اور چاہے تو سکون سے خود بھی سوجائے اور گھروالوں کو بھی نیند پوری کرنے کا موقع فراہم کردے۔ میری ساس اپنی پوتی کا خوب خیال رکھتی ہیں تو مجھے کافی سپورٹ ملتی ہے۔ انہوں نے ہی مجھے یہ امر باور کرایاہے کہ اپنی بیٹی کے لئے روزانہ کچھ نہ کچھ اپنے ہاتھوں سے ضرور تیار کرو تاکہ وہ یادکرے کہ میری ماں میرے لئے کتنی محنت کرتی تھیں۔

محترمہ سلویٰ نے کہا کہ بچے بڑوں کے لئے کھلونے کی مانند ہوتے ہیں لیکن ان کی ہر وقت کی دیکھ بھال اوران کی غذا کی طرف توجہ دینا بلا شبہ ’’فل ٹائم جاب‘‘ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں یہ خوشگوار احساس رہتاہے کہ آپ تنہا نہیں ۔ آپ نے کہیں جانا ہے ،گھر پر تقریب ہے یا بچے کو سنبھالنا ہے ، ہر موقع پر آپ کو گھر والوں کی ہروقت مدد حاصل رہتی ہے۔ ویسے بھی اجتماعیت میں برکت تو ہوتی ہے۔ سلویٰ نے ہمیں ڈاکٹر صفیہ کے حوالے سے بتایا کہ اغیار کی باتوں میں آکر ہم اپنا نقصان کررہے ہیں۔یہ بھی ان کی ایک چال ہے کہ اپنا کاروبار بڑھانے اور ماں کو بچے سے دور کرنے کیلئے کہ دودھ کے ڈبوں کی بھرمار ہر علاقے ، ہر جگہ ،ہر بازار اور ہر دکان میں کردی گئی۔ اب غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے مختلف قسم کے بچوں کے کھانے ٹن پیک میں بھی مارکیٹ میں پہنچادئیے گئے تاکہ تازہ پھل و سبزیوں سے بھی بچے دور رہیں اور ان کا بزنس خوب چلتا رہے ۔

سلویٰ نے کہاکہ بچے ہر بات اسی لئے پوچھتے ہیں کہ انہیں ہر بات جاننے کا تجسس ہوتا ہے۔ جن بچوں کو والدین ڈانٹ کر چپ کرادیتے ہیں، ان میں خود اعتمادی پروان نہیں چڑھتی لہٰذا بچے کی بات غور سے سننی چاہئے اور اسے تسلی بخش جواب بھی دینا چاہئے۔ بچپن کی باتیں بتاتے ہوئے سلویٰ نے کہا کہ بڑی بہن چونکہ مجھ سے کئی سال بڑی ہیں تو وہ میرا خیال بہت رکھتی تھیں مگر یہ سب کچھ اس وقت غائب ہوجاتا تھا جب انکی سہیلیاں ہمارے گھر آتی تھیں۔ میں چونکہ گھر بھر کی لاڈلی تھی اور وہ ہائی اسکول کی لڑکیاں جب خوشیوں کا طوفان سمیٹے ، رنگین آنچلوں میںتازہ شیمپو کئے بالوں کو کیچر میں جکڑے جدید تراش والے ملبوسات اور مختلف قسم کی جیولری پہنے بیرونی گیٹ سے طلوع ہوتیں اور باجی کے کمرے میں غروب ہوجاتیں تو اس وقت میری اپنی بہن سے ناراضی ہوجاتی۔

میرے دونوں بھائی وقار اور حمزہ فوراً میری دلجوئی کی کوشش کرتے ۔باجی کی سہیلیاں کبھی زور سے ہنستیں تو باہر انکی آواز آجاتی۔ ہم ٹی وی اونچی آواز میں لگا دیتے ۔ ہم کھیلتے تو میرا بھائی حمزہ مجھے ہر کھیل میں جتا دیتا۔وہ مجھے اداس دیکھ ہی نہیں سکتا تھا۔ جوکھانے پینے کی چیزیں باجی کی سہیلیوں کیلئے بنتیں، سب سے پہلے ہمارے لاونج کی ٹیبل پر سجتیں۔ اس طرح دونوں بھائی مجھے ساتھ رکھتے۔ میں نے اپنے بچپن میں زیادہ تر لڑکوں والے ہی کھیل کھیلے ہیں۔ محترم ہیثم اقبال نے کہا کہ ان کی اہلیہ سلویٰ بہت رحمدل طبیعت کی حامل ہیں چونکہ ان کے تینوں بھائی بہن پاکستان بغرض تعلیم جاچکے تھے توانہوں نے یہیں رہ کر آن لائن بیچلرز ڈگری حاصل کی ۔ وہ والدین کو یہاں اکیلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھیں ۔ کئی سال تک بچوں کو اسکول میں پڑھایا اورڈھائی سال تک ایک انگریزی جریدے میںبچوں کے صفحے پر مضامین بھی لکھتی رہیں۔ شاید اسی لئے انہیں روایتی پکوان سیکھنے کا زیادہ موقع نہیں ملا لیکن ہمارے گھر آکر ہماری والدہ کے ساتھ انہوں نے بڑی محنت سے مختلف ممالک کی ڈشز تیار کرنا سیکھیں ۔ ہمارے گھر میں وہ ہر دلعزیزہستی بن چکی ہیں۔ اپنے شوہرہیثم اقبال کے بارے میں سلویٰ نے کہا کہ ان کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ دوسرے کی خامی کو نظر انداز کردیتے ہیں اور اس کی کسی اچھائی کی تعریف کرتے ہیں۔

شیئر: