Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تاریکیوں میں روشنی کی علامت، سیدنا ابن ام مکتومؓ

آخری وقت تک انہوں نے جھنڈے کی خوب حفاظت کی ، دشمن کے ایک گھوڑے نے انہیں کچل ڈالا- - - - - - - - - 

 

عبدالمالک مجاہد۔ریاض

سیدناعبداللہ بن ام مکتومؓ مکہ مکرمہ کے باسی تھے اور خاندانِ قریش سے تعلق رکھتے تھے۔آپ اللہ کے رسول کی سب سے پہلی اور غم گسار زوجہ محترمہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہؓ کے ماموں زاد بھائی تھے۔والد کا نام قیس بن زائدہ تھا۔ والدین نے ان کا نام الحصین رکھا تھا مگر اللہ کے رسول نے بدل کر عبد اللہ رکھ دیا۔ آپؓ کی والدہ اُم مکتوم کانام عاتکہ بنت عبد اللہ تھا۔

سیدنا عبد اللہؓ قدیم الاسلام تھے،سابقون اولون میں شامل تھے۔ امیدوں کے چراغ جلانے والے، پیدائشی نابینا ہونے کے باوجود بڑے پُر عزم اور با ہمت تھے۔ اگر چہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے نبی کریم کا دیدار نہیں کیا مگر آپ کے فرمودات وارشادات دل کی گہرائی سے سنے اور آپ کے پیغام کو اچھی طرح سمجھ لیا۔ مکہ مکرمہ سے سب سے پہلے مدینہ طیبہ ہجرت کر کے جانے والے سیدنا مصعب بن عمیرؓتھے۔سیدنا عبد اللہ بن ام مکتومؓ کو جب علم ہوا کہ اللہ کے رسولنے اپنے صحابہ کرام کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ہے تو آپ بلا تاخیر اپنا وطن ،برادری اور گھر بار چھوڑ کر مدینہ جانے کیلئے تیار ہوگئے۔

آپؓ نے اپنا دین بچایا اورباقی سب کچھ اللہ کی خاطر چھوڑ چھاڑ کر مدینہ کیلئے روانہ ہو گئے۔سیدنا مصعب بن عمیرؓ کے بعد دوسری شخصیت جسے ہجرت مدینہ کا شرف حاصل ہوا، سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم ؓتھے۔ اللہ کے رسولنے ان کو مسجد نبویؐ کا مؤذن بھی مقرر فرمایا۔ مسجد نبویؐ کے سب سے پہلے مؤذن سیدنا بلال بن رباحؓ تھے۔یہ دونوں حضرات باری باری اذان اوراقامت کہتے ۔ اگر اذان سیدنا عبد اللہؓ دیتے تو اقامت سیدنا بلالؓ کہتے۔ اسی طرح اگر اذان سیدنابلالؓ دیتے تو اقامت سیدنا عبد اللہؓ کہتے۔ بعد میں اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا: جو شخص اذان کہے، وہی اقامت کہنے کا زیادہ حقدار ہے۔

رمضان المبارک کے دوران سحری کی پہلی اذان سیدنا بلال بن رباحؓ دیا کرتے تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: جب بلال ؓاذان دیں تو سحری کھانا شروع کر دیا کرو، جب سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم ؓاذان دیں تو کھانا پینا چھوڑ دو کیونکہ سحری کا وقت ختم ہو گیا۔ سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم ؓاسلام کے شیدائی اور اللہ کے رسولسے شدید محبت کرنے والے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف اوقات میں آپ سے ملنے کیلئے حاضر ہو جاتے تھے۔

اللہ کے رسولنے ان کو بعض ایسے اعزازات سے نوازا جو بہت کم صحابہ کو حاصل ہوئے ہیں۔ آپ غزوات یا دوسرے امور کیلئے مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جاتے تو مدینہ شریف میں انہیں اپنا قائم مقام مقرر کر کے جاتے۔ بات سمجھنے کیلئے کہ جب جنگ ہوتی ہے تو سارے لوگ تو جنگ پر نہیں جا سکتے۔ ان میں بیمار ضعیف، بوڑھے، بچے عورتیں سبھی شامل تھے۔ مدینہ منورہ کی حفاظت کیلئے بھی بعض صحابہ کو چھوڑا جاتا تھا۔ ان کو نمازیں پڑھانے کیلئے سیدنا عبداللہ بن ام مکتومؓ کو مقرر کیا جاتاتھا۔ مدینہ طیبہ میں بطور امام ان کی تقرری سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نابینا امام کی امامت درست ہے، وہاں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ مدینہ ایک ریاست تھی جس کے سربراہ اللہ کے رسولتھے۔

جب آپ مدینہ کو چھوڑتے تو سیدناعبداللہ بن ام مکتومؓ کو بھی کئی مرتبہ یہ اعزاز ملتا کہ مدینہ کے قائم مقام والی بنتے۔ وہ لوگوں کو نمازیں پڑھانے کے علاوہ ریاستِ مدینہ کے انتظامی امور کی سرپرستی اور قیادت کے فرائض بھی سر انجام دیتے تھے۔ انہیں 13 مرتبہ یہ اعزاز ملا کہ وہ مدینہ کے قائم مقام والی بنے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد فرض کیا تو عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کی بڑی خواہش تھی کہ کاش وہ بینا ہوتے تو وہ بھی جہاد میں حصہ لیتے ۔ اللہ کی راہ میں قتال کرتے اور شہید کا رتبہ پاتے۔اللہ کے رسولکی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کا دور شروع ہوا جو محض2 سال،2 ماہ اور 10 دن کے بعد ختم ہو گیا۔ سیدنا عمر فاروقؓ کا دور آیا تو فارس اور روم کیخلاف جہاد میں اور تیزی آ گئی۔سیدنا ابوبکر صدیقؓ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ اسلامی حکومت بڑی مستحکم ہو چکی تھی۔

مسلمان دنیا پر چھا رہے تھے۔ روم و ایران کو معلوم ہو چکا تھا کہ اب ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے آخری دور میں معرکہ یرموک ہوا۔ شام کی سرحد کے قریب اردن میں یرموک چھوٹا سا دریا ہے۔ اس کے کنارے یہ تاریخی جنگ ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی تعداد 36ہزار اور رومیوں کی تعداد2 لاکھ 40 ہزار تھی۔ دشمن 4گنا زیادہ تھا مگر اس کے باوجود اس نے بری طرح شکست کھائی۔ اس کے 70ہزار فوجی ہلاک ہوئے ۔

مسلمانوں کے شہداء کی تعداد صرف4 ہزار تھی۔ سیدنا عبداللہ بن ام مکتومؓ تھوڑا سا سوچتے اور غور کرتے ہیں۔ اللہ اللہ! اس کی راہ میں نکلنا اور جہاد کرنا، پھر غازی بن کر لوٹنا یا شہادت کے بلندمرتبے پر فائز ہو جانا، سبحان اللہ! کیااس سے بڑھ کر بھی کوئی سعادت ہو سکتی ہے؟ انہیں اللہ کے رسول کا فرمان یاد آجاتا ہے۔ شہید کو قیامت کے روز بہت سے اعزازات سے نوازا جائے گا۔ خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ جنت میں جائے گا تو 72حوروں سے اس کی شادی کر دی جائے گی۔سیدناعبداللہ بن ام مکتومؓ نے دنیا میں کسی عورت کو تو دیکھا نہیں کہ وہ دنیا میں آنکھوں کی بینائی سے محروم تھے مگر تمنا اور خواہش تھی کہ جنت میں حوروں کو دیکھ سکیں گے ۔ حور کے بارے میں انہیں معلوم تھا کہ اس کے سر کی چادر دنیا جہان کے قیمتی خزانوں سے بہتر ہو گی۔ شہید کو قیامت کے روز وقار کا تاج پہنایا جائے گا۔جنت کی تمنااور اس کا حوصلہ دل میں لئے ابن ام مکتوم سیدنا عمر بن خطاب کی طرف چل دیے۔ وہ سیدناعمر فاروقؓ کی مجلس میں پہنچے، اذن باریابی طلب کیا جو فورا ًدے دیا گیا۔ یہ کون ہیں؟ یہ کوئی عام شخصیت تو نہیں۔ یہ وہ عظیم شخصیت ہیں جن کیلئے قرآن پاک میں سورۃ عبس کی ابتدائی آیات نازل کی گئی تھیں۔ سیدنا عمر فاروقؓنے انہیں مرحبا کہا۔ ان کا شایان شان استقبال کیا جا رہا ہے۔ مرحباو اھلًا و سھلًا عبداللہ بن ام مکتوم! فرمائیے، آپ کا میرے پاس کیسے آنا ہوا؟ ترحیبی جملے ادا ہو رہے ہیں۔ خیرسگالی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کہہ رہے ہیں: امیرالمؤمنین! میں نے سنا ہے کہ آپ مجوسیوں سے ٹکر لینے کیلئے قادسیہ کے میدان میں مجاہدین کو ارسال کر رہے ہیں۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے جواب میں فرمایا: ہاں عبد اللہ! آپ نے درست سنا ہے۔ میں بھی اس لشکر کے ساتھ قادسیہ کے میدان میں جانا چاہتا ہوں۔ انہیں کون انکار کر سکتا تھا۔ امیر المؤمنین بھی ان کی دل سے عزت کرتے تھے ۔ عبداللہ بن ام مکتومؓ تو اندھیروں میں روشنی کے چراغ جلانے والے تھے۔ عزم و اِرادے کے پہاڑ،سیدنا عبداللہ بن ام مکتومؓ، امیر المؤمنین عمر بن خطابؓ کو اپنی پلاننگ بتا رہے ہیں۔فرماتے ہیں: مجھے اسلامی لشکرکے ہمراہ بھجوا دیں۔زرہ پہنا کر صفوں کے درمیان کھڑا کر دیں۔ اسلام کا جھنڈا، محمد عربی کا جھنڈا، لا الہ الا اللہ کا جھنڈا میرے ہاتھ میں پکڑ ا دیں۔ کہنے لگے: میں تو نابینا آدمی ہوں، وہ اپنی خوبی امیر المؤمنین کو بتا رہے ہیں۔ کبھی نابینا نے بھی جنگ لڑی ہے؟ کبھی کسی نے دیکھا کہ ایک نابینا کے ہاتھ میں لشکر کا جھنڈا ہو مگر شہادت کا مشتاق دینِ اسلام کا یہ سپاہی سیدنا عمر فاروقؓ کو قائل کر رہا ہے۔ اپنی خوبی بیان کر رہا ہے کہ نابینا تو میدان جنگ سے نہیں بھاگتا۔

مجھے تو معلوم ہی نہیں ہو گا کہ جنگ میں فتح کسے ہو رہی ہے۔ کون مرد میدان ہے۔ میں کیسے بھاگ سکتا ہوں؟ امیر المؤمنین! جس کے ہاتھ میں جھنڈا ہے اگر وہ قائم رہے اپنی جگہ پر ڈٹا ہوا ہے تو اس سے مجاہدین کو حوصلہ ملے گا۔ ہاں! اگر میں جھنڈے کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو جاتا ہوں یا مسلمانوں کو فتح نصیب ہوتی ہے،ہر حال میں صف اول میں کھڑا رہوں گا۔ امیر المؤمنین عمر بن خطابؓ ان کے دلائل کے سامنے خاموش ہیں۔ یوں بھی یہ کوئی عام صحابی تونہیں ، یہ سابقون اولون میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو نور بصیرت عطا فرمایا ہے۔

 

(مکمل مضمون روشنی 11نومبر میں ملاحظہ کریں)

 

 

 

شیئر: