Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رسول اکرم ﷺ کا سفرِ آخرت

اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ دنیا کی زیب وزینت میں سے جوکچھ چاہے لے لے یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے قبول کرلے

 

مظہر الہدیٰ قادری۔نئی دہلی

سورہ نصر کا نزول گویا رسولِ اکرم کی رحلت کی اطلاع تھی۔ ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ جب یہ سورت ناز ل ہوئی تونبی کریم نے فرمایا: مجھے میری وفات کی خبر دے دی گئی ہے اورمیرا وقت آن پورا ہوا۔

دوسری روایت جو حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے منقول ہے اْس میں بیان کیا گیا ہے کہ اس سورہ کے نزول سے حضور نے یہ سمجھ لیا تھا کہ آپ کو دنیا سے رْخصت ہونے کی اطلاع دے دی گئی ہے۔مسند احمد، ابن جریر، طبرانی، نسائی

رسولِ اکرم سے زیادہ اس بات سے کون واقف ہوسکتا تھا کہ آپکے دنیا سے روانگی کا وقت آن پہنچا ہے ۔جب دین کی دعوت کا کام پورا ہوگیا اوردعوت وتبلیغ اپنے اتمام وکمال کو پہنچ گئی اور الوہیت ِ الہٰی کے اثبات اوراس کے ماسوا کی نفی اوررسالت محمدی کی بنیاد پر ایک جدید معاشرے کی تعمیر عمل میں آچکی اورعرب کی باگ ڈوراسلام کے ہاتھ میں آگئی تورسول اکرم سے ایسی علامتیں نمودار ہونا شروع ہوئیں اور آپ کے قلب وشعور کو یہ احساس ہوچلا کہ دنیا میں اب قیام کا زمانہ اختتام کے قریب ہے اوراس فانی دنیا کو الوداع کہنے والے ہیں۔

چنانچہ رسول اکرم نے سفرِ آخرت کی تیاری بہت پہلے سے شروع کردی تھی ۔اللہ تعالیٰ کی عبادت اورتسبیح وتہلیل میں پہلے بھی کمی نہ تھی ،اب اس میں اوربھی اضافہ ہوگیا۔ ہرسال رمضان میں10 روز اعتکاف کا معمول تھا،10ھ رمضان میں آپ نے20 روز کااعتکاف فرمایا پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے 2مرتبہ قر آن کا دَور کرایاجبکہ اس کے برعکس ہر سال10 روز کا اعتکاف فرماتے اور ایک ہی مرتبہ قرآن کا دَور ہوتا۔ آخری حج، حجۃ الوداع کے موقع پر جوخطبے ارشاد فرمائے ، اس جملے سے رخصت اوروداع کا انداز نمایاں تھا۔ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا

مجھے نہیں معلوم غالباً اس سال کے بعد اس مقام پر تم لوگوں سے کبھی نہ مل سکوں گا ۔بیہقی، کتاب الحج رسول اللہ اوائلِ صفر11ھ میں دامنِ احد تشریف لے گئے اورشہداء کیلئے اسی طرح دعا فرمائی گویا زندوں اور مُردوں سے رخصت ہورہے ہیں پھر واپس تشریف لا کر منبر پر فروکش ہوئے اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا

میں تمہارا امیرِ کارواں ہوںاور تم پر گواہ ہوں،میں تم سے پہلے حوض کوثر پر جارہا ہوں تا کہ اللہ کی بارگاہ میں تمہارے متعلق شہادت دوں، اللہ کی قسم میں اس وقت اپنا حوض (حوض کوثر) دیکھ رہا ہوں ، مجھے زمین اورزمین کے خزانے کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں، مجھے یہ خوف قطعاً نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ اندیشہ اس کا ہے کہ دنیا طلبی میںباہم مقابلہ کرو گے ،ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش شروع کردوگے۔متفق علیہ ، بخاری

ایک روایت میں ہے کہ ایک روز آدھی رات کوآپ جنت البقیع تشریف لے گئے ۔ دیر تک آپ نے اہل بقیع کیلئے دعائے مغفرت کی، فرمایا اے قبر والو! تم پر سلام ! جس حال میں ہیں اس کے مقابل تمہیں وہ حال مبارک ہو جس میں تم ہو۔ فتنے تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ایک کے پیچھے ایک چلے آرہے ہیں اور بعد والا پہلے والے سے زیادہ برا ہے ، اس کے بعد یہ کہہ کر اہل قبور کوبشارت دی کہ ہم بھی تم سے آملنے والے ہیں۔ پھر ایک خطبہ ارشاد فرمایا جوآپ کی حالتِ صحت میں آخری خطبہ سمجھا جاتا ہے۔

فرمایا مسلمانوں مرحبا! اللہ تمہیں اپنی رحمت کے سائے میں رکھے ، تمہاری شکستہ دلی دور فرمائے ، تمہارا معاون ودستگیر ہو، تمہیں رزق اوربرکت دے ، تمہاری مدد کرے ، عزت ورفعت سے سرفراز رکھے، امن وعافیت سے شاد کام فرمائے ، میں تمہیں تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں ، اللہ ہی کوتمہارا وارث بناتا ہوں ، اُسی سے ڈراتا ہوں کیونکہ میں نذیر مبین ہوں، دیکھنا! اللہ کی بستیوں اور اس کے بندوں میں تکبر اور برتری اختیار نہ کرنا اللہ نے مجھے اورتمہیں حکم دیا ہے ،یہ آخرت کا گھر ہے، یہ ہم ان لوگوں کو دیتے ہیں جوزمین میں تکبرو برتری اورفساد کا ارادہ نہیں کرتے اورآخرت کی کامرانی صرف پرہیز گاروں کیلئے ہے۔ (القصص38)،پھر فرمایا :

کیا متکبروں اورمغروروں کا ٹھکانہ دوزخ نہیں ( الزمر20)اورآخر میں یہ جملہ ارشاد فرمایا ’’ تم سب پر سلام اوراُن سب پر سلام جواسلام کے ذریعے میری بیعت میں داخل ہوں گے۔ آغازِ علالت: ماہِ صفر کے آخری یوم میں ایک جنازے میں رسول اکرم تشریف لے گئے تو بقیع سے واپسی پر راستے ہی میں دردِ سر شروع ہوگیا اورحرارت اتنی تیز ہوگئی کہ سر پر جوپٹی بندھی ہوئی تھی اس کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی ۔

اُس روز ازواج مطہرات میں سے حضرت میمونہؓ کے ہاں قیام کی باری تھی ، ضعف اورنقاہت میں برابر اضافہ ہوگیا تھا ، یہ آپ کے مرض الموت کا آغاز تھا مگر آپ مسجد میں اسی حالتِ مرض میں برابر نماز ادا کرتے رہے یہاں تک کہ ضعف میں اضافے کے باعث بغیر سہارے کے چلنا دوبھر ہوگیا۔ اسی اثنا آپ ازواج مطہرات سے پوچھتے رہتے کہ میں کل کہاں رہوںگا ، میں کل کہاں رہوںگا ۔

ازواج مطہرات آپ کے مقصود کوسمجھ گئیں اوراجازت دے دی کہ آپ جہاں چاہیں رہیں توآپ حضرت عائشہؓ کے مکان میں تشریف لائے اس حالت میںکہ ایک طرف حضرت عباسؓ اور دوسری طرف حضرت علیؓ نے جسم اطہر کا بیشتر بوجھ اْٹھا رکھا تھا اورپائے اقدس زمین پر گھسٹ رہے تھے۔بخاراس قدر تیز تھا کہ آپ نے جوموٹی چادر اوڑھ رکھی تھی رسول اللہ کے اصحابؓ کواس کے اوپر سے شدید حرارت محسوس ہورہی تھی ۔حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓنے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کو تو شدید بخار ہے ۔ آپ نے فرمایا ہاں، مجھے اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تمہارے2آدمیوں کو۔ عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کا اجربھی دو گنا ہوگا فرمایا اُس ذ ات کی قسم جس کے قبضے میں میر ی جان ہے، روئے زمین پر کوئی مسلمان نہیں جسے مرض یا کسی اوروجہ سے تکلیف پہنچے اوراللہ اس کے گناہ اس طرح کم نہ کرتا ہوجس طرح خزاں میں درختوں کے پتے گرتے اور کم ہوتے ہیں۔

امامتِ صدیق : اس حالت میں بھی آپ نماز کیلئے مسجد تشریف لے جاتے رہے اور خود ہی نماز پڑھاتے رہے۔ آخری نماز جو آپ نے پڑھائی وہ مغرب کی نماز تھی ، اس کے بعد غشی طاری ہوگئی۔ عشاء کا وقت ہوا توآپنے دریافت فرمایا نماز ہوچکی ؟عرض کیا گیا کہ سب کو آپ کا انتظارہے۔

آپنے لگن میں پانی بھروا کر غسل فرمایا۔ پھر اْٹھنا چاہا کہ غش آگیا ، افاقہ ہوا تو پھر پوچھا ، نماز ہوگئی لوگوں نے وہی پہلا والاجواب دیا ، آپ نے پھر غسل فرمایا اورجب اْٹھنا چاہا توغش آگیا۔ افاقہ ہوا تو پھر دریافت فرمایا۔وہی جواب ملا پھر سہ بارہ وہی بات پیش آئی۔ بالآخر آپنے ارشاد فرمایا کہ ابوبکر نماز پڑھائیں۔ جوشخص یہ حکم لے کر مسجد میں پہنچا تو اسے ابوبکر نظر نہ آئے تو حضرت عمر سے کہا کہ آپ نماز پڑھا دیجئے ، ادھرعمرنماز پڑھانے لگے تو تکبیر کی آواز آپ نے سن لی توفرمایا: نہیں نہیں ابوبکر نماز پڑھائیں۔بخاری

(جاری ہے)

شیئر: