Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیٹا! تمہاری ماں کو غیروں نے کاندھا دیا تھا، مجھے تم ہی دفنانا

ابا کا انتقال ہوا تو مجھے پاکستان سے آئے ہوئے 2 ماہ ہوئے تھے، دوبارہ جانے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا تھا، میں نے باپ کی خواہش کو بھی دفن کر دیا

 

ارشد علی ارشد۔ دمام

وہ میرا ہم جولی اورلنگوٹیا تھا مگر وقت نے اسے مجھ سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا ۔آنکھوں میں ادا سی کے ڈیرے اور لہجے میں تھکاوٹ کا عنصر ۔یوں لگتا تھا جیسے زندگی کے سفر نے اسے بہت تھکا دیا ہے ۔مجھے اس کے چہرے کی جھریوں کی دبیز تہہ میں ایک درد بھری کہانی چھپی نظر آئی ۔ میں نے اسے گلے لگایا تو احساس جاگا جیسے وہ رو رہا ہے ۔اس کا جسم لرز رہا تھا ۔مجھے لگا وہ برسوں سے کسی ایسے کندھے کا متلاشی تھا جس پر سر رکھ کر رو ئے اور آنسوؤں میں دل کے سارے غم بہا دے۔میں نے کافی دیر اسے سینے سے لگائے رکھا اور شفیق باپ کی طرح شفقت سے اس کی پیٹھ تھپتھپاتا رہا ۔اس کے غم میں میرا دل بھی رنجیدہ ہو چکا تھا ۔کافی دیر بعد جب مجھ سے الگ ہوا تو مجھے دونوں بازوں سے پکڑ کر پرجوش لہجے میں بولا "کیسے ہو میرے یار ؟"

’’ اللہ کا شکر ہے ۔ رفاقت دین تم سنا ئو کیسے ہو اور آج اس طرف کیسے ۔‘‘ میرے سوال پر وہ بولاکہ ’’اڑنے والے کے جب پر کٹتے ہیں تو سیدھا زمین پر ہی گرتا ہے ۔بہت اُڑلیا ،پر کٹ چکے ہیں میرے یار۔ اب آسمان پر نہیں زمین پر ہی رہوں گا۔‘‘ بہت گہری باتیں کرنے لگے ہو ۔ میں نے چلتے ہوئے کہا ’’ اس طرف رکشہ کھڑا ہوا ہے ۔‘‘ میں نے یہ کہتے ہوئے اس کا یک سفری بیگ اٹھا لیا ۔ " ہاں چلو۔" اس نے قدم سے قدم ملاتے ہوئے میرے شانوں پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔

گائوں میں کافی تبدیلی آ گئی ہے ۔یہ چھوٹا سا تانگہ اڈہ کتنا بڑا بس اسٹینڈ بن چکا ہے ۔" وہ دائیں بائیں دیکھ کر بولا۔ میں اس کی بات سن کر فقط مسکرا کر رہ گیا ۔گھر پہنچنے میں ہمیں20 منٹ لگے ۔اس نے رک کر میرے 4 مرلے کے مکان کو بغور دیکھا ۔اس بار میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہاکہ" کیا دیکھ رہے ہو ،وہی ہے جسے20 سال پہلے چھوڑ کر گئے تھے۔سلور کے برتن کو قلعی اور مکان کو رنگ روغن کروا ئو تو نئے ہو جاتے ہیں۔ چار پانچ سال بعد کر دیتا ہوں رنگ۔بس نیا ہو جاتا ہے۔" اس نے طویل سانس بھری اور بیٹھک میں چلا گیا ۔ چائے پانی سے فارغ ہو کر بولا ۔ " ہم مقدر سے آگے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں ۔میرے باپ دادا میرے لئے کیا چھوڑ کر گئے تھے، اسی گائوں میں کچی اینٹوں کا کچامکان تھا۔میں نے اس پر قناعت نہیں کی ،دوڑ لگا دی۔25سال پہلے سعودی عرب چلا گیا ۔5 سال بعد یہ گا ئوں چھوڑ کر سمندری شہر میں مکان لے لیا ۔پھر دکانیں لیں۔ گھر مزید بڑا کیا، جو میرا مقدر تھا مجھے ملا اور بچوں کا مقدر انہیں مل رہا ہے مگر ہم اندر کی خواہشوں گند نہیں دھو سکتے۔ اتنی لمبی دوڑ کے بعد اب تم اپنا اور میرا جسمانی موازنہ کرو ۔تم مجھ سے برس 2 برس بڑے ہو گے ۔ آج 10 برس چھوٹے لگتے ہو۔

" " تمہارے صرف بال ہی سفید ہو ئے ہیں ۔ کلر لگا لو تو اب بھی جوان ہو ۔" میں نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہا مگر وہ سابقہ لہجے میں بولا’’انسان خواہشوںکے پر لگا کر اڑنے کیلئے پوری طاقت صرف کرتا ہے۔ جب زمین چھوڑ دیتا ہے تو پلٹ کر وہیں آنا چاہتا ہے جہاں سے آغاز سفر کیا تھا مگر ،وقت مسکرا دیتا ہے ۔ تم کبھی میرے دوست اڑنے کی کوشش مت کرنا ورنہ اس چار مرلے کے مکان کوبھی ترسو گے ۔‘‘

تم قسمت کے دھنی ہو یار۔شہر میں اتنا بڑا مکان ہے۔مارکیٹ ہے "بینک بیلنس ہے ،آسودہ حال ہو اور کیا چاہئے؟ " " اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو کہ میں اپنے جگری یار سے ،جس کے ساتھ میں نے شب بیداری کی،لڈواور تاش کی محفلیں سجائیں، دو ہنسوںکی جوڑی کی طرح جس کا ساتھ رہا اسے 20برس بعد مل رہا ہوں ۔ان20 برسوں کا ہی حساب جوڑ لو۔یہ برس میں نے سرابوں کے تعاقب میں گزار دئیے اور تم نے دن اچھے تھے یا برے اپنوں کے درمیان رہ کر بسر کئے۔زندگی کے دکھ سکھ اکٹھے دیکھے اور سہے ۔پتہ ہے جب میری ماں کا جنازہ اٹھا اس وقت میں جدہ شہر میں مشوار اٹھا رہا تھا ۔ابا نے کہا کہ بیٹا تمہاری ماں کو غیروں نے کاندھا دیا،بس اتنا کرنا مجھے اپنے ہاتھوں سے دفنا جانا۔جب 2 سال بعد ابا دنیا کے اسٹیج پر اپنا کردار نبھا کر رخصت ہوئے تو مجھے چھٹی گزار کر آئے ہوئے 2 ماہ ہوئے تھے ۔اتنے قلیل عرصے میں ،میں پاکستان جانے اور آنے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔

ابا کی خواہش کو میں نے دولت کی مٹی میں دفن کر دیا۔" " میں دونوں جنازوں میں شریک تھا ۔" میری بات سن کر وہ اندر سے جیسے ہل گیا ۔اداس لہجے میں بولا ۔ " پھر قسمت کا دھنی میں ہوں یا تم ،کہ تم دوستوں کے فرض کفایہ بھی ادا کرتے رہے ہو۔" " میں کیسے شریک نہ ہوتا یار! جب تم سعودی عرب گئے تھے تو تمہارے ابا میری دکان پر آ کر گھنٹوں بیٹھے رہتے اور کہتے تھے کہ" پتر جمیل تمہاری شکل میں مجھے اپنا پتر رفاقت دین نظر آتا ہے ۔ وہ ہمیں چھوڑ کر سمندروں پار چلا گیا ۔" میں نے سوچا تھا باہر جانے والے لوگوں کو بابو ٹائپ نوکری ملتی ہو گی ۔کام کم اور اجرت زیادہ ،مگر وہاں جا کر معلوم ہوا کہ مزدور صرف مزدور ہی ہے ،چاہے کہیں بھی چلا جائے۔ ابا نے خط میں لکھا تھا پیسہ سو گنا بھی زیادہ ملے تو ہمارے پتر کی جدائی کا زخم دھو نہیں سکتا ۔

ایک گائے ابھی باقی ہے ۔اس کا دودھ بیچ کر گھر کا چولہا جلتا رہے گا ۔تو اپنے پیسے بچا کر رکھ اور جلدی واپس آنے کی کوشش کر ۔" مگر میری بیوی بولی’’ رفاقت دین !خیر سے چار بچوں کے باپ بن گئے ہو ۔تمہاری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں ۔‘‘ وہ بھی با کمال تھی خواہشوں کو ذمہ داری کے لباس میں سی کر مجھے پہنا دیا کہ بہت جچو گے اس لبادے میں ۔محنت تو پہلے بھی میں بہت کرتا تھا مگر بیٹی کی پیدائش کے بعد میں خود غرض ہو گیاتھا۔ دوسروں کے حصے کا اوور ٹائم بھی لگانے لگا ۔ڈیوٹی کے بعد خصوصی گاڑی میں مسافر اٹھانے لگا ۔

اس طرح صبح 4بجے سے شام 6 بجے تک سائٹ پر کمپنی کا کام کرتا اور بعد میں رات 10 ،11 بجے تک مشوار ڈھوتا ۔میں جو ایک انسان تھا، اب پیسہ کمانے کی مشین بن گیا ۔ بچوں کے جوان ہونے تک میںایک مارکیٹ کھڑی کر چکا تھا ۔آس تھی کہ بچوں کی پڑھائی ختم ہو تو سب کچھ چھوڑ کر گھر چلا جائوں گا۔اب میرے آرام کے دن ہیں مگر … وہ چند لمحے رکا ۔میں خاموش رہا تاکہ وہ بولتا رہے ۔ ایک آہ بھر کر وہ کہنے لگا کہ ’’ میں نے جب سعودی عرب چھوڑنے کی بات کی تو نہ بچے مانے نہ بیوی۔بیوی نے تو فوراً کہہ دیا کہ رفاقت دین! تمہارا دماغ چل گیا ہے ۔بچوں کی شادیاں سر پر ہیں اور تم اپنی کشتی خود بیچ منجدھار چھوڑ کر کنارہ تلاش کرنے لگے ہو ۔ یہ بے وقوفی مت کرنا ۔‘‘ میں نے ہمیشہ کی طرح ان کی لاج رکھی اور پھر سے کولہو کے بیل کی طرح جت گیا ۔

بچے پڑھ لکھ کر نوکریوں پر لگ گئے۔ ان کی شادیاں ہوئیں تو وہ اپنی دنیا میں مگن ہو گئے۔اس دوران بیوی نے بھی ہمیشہ کیلئے منہ موڑ لیا۔ایک بیٹی ہے جو حال احوال پوچھنے آجاتی ہے۔بیٹے اپنے اپنے گھروں کو پرواز کر گئے۔میں نے اپنا گھر اور حجرہ والدین کو بتائے بغیر فروخت کر دیا تھا ۔میرے بچے اب مجھے مارکیٹ کے کرائے کی ہوا بھی لگنے نہیں دیتے ۔وطن میں چھٹی گزار کر جب بھی واپس سعودی عرب جاتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ چاچا !اب گھر جا ئو اور آرام کرو۔ میں سوچتا ہوں میرا وہ کون سا گھر ہے جہاں بیٹھ کر میں آرام کروں ۔ رفاقت دین چپ ہوا تو میں نے دیکھا آنسوؤں کے قطرے اس کے چہرے کی جھریوں میں راستہ بناتے ہوئے سفید داڑھی میں گم ہو رہے تھے۔

محترم قارئین !

اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔،

آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کا نام شائع نہ ہو تو ہم نام تبدیل کردینگے،مگر آپ کی کہانی سچی ہونی چا ہیے۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔

اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔۔

ہم سے فون نمبر 0966122836200 ext: 3428پر بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے۔آپ کی کہانی اردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔

ای میل:[email protected]

شیئر: